Welcome to Inqilab Patel's Blog

Students' Resource centre, developed to facilitate students in their studies.

O/A Level Computer Studies with Inqilab Patel

A Highly experienced, well educated and self motivated computer teacher.

Ruknuddin Patel's Web portal

In touch with tomorrow

Inqilab Patel's Mag

Inqilab Patel's Magazine is a Students Resource Centre. It is developed to facilitate students of IT, O / A Level and Business Administration in their studies and to make them literate on current Global Political Issues.

RIC: Ruknuddin Institute of Computer

RIC: Ruknuddin Insitute of Computer (Management, IT) is established in April 15, 1995 by Inqilab Ruknuddin Patel. It is organising Skill Development Programmes (SDP) in the fields of Information Technology and Business Administration.

Friday, 10 October 2014

جنگ جو غزہ کے ڈاکٹروں نے لڑی

اگلے ہفتے قاہرہ میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں اس پر بحث ہوگی کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان حالیہ جنگ کے دوران غزہ میں تباہ ہونے والی عمارتوں کی تعمیر نو کیونکر ممکن ہو سکتی ہے۔ دیگر عمارتوں کی تباہی اپنی جگہ، لیکن پچاس دن تک جاری رہنے والی اس جنگ میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جو تباہی غزہ کے ہسپتالوں کی ہوئی اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔
نہ تو ڈاکٹر نوین کی نظر سے ایسی صورتحال گزری تھی اور نہ ہی ڈاکٹر سائمن کو اس کا کوئی تجربہ تھا۔
جنگ کے دوران عام شہریوں نے جو ویڈیوز بنائی تھیں ان میں غزہ میں افراتفری کے مناظر دیکھے جا سکتے تھے جہاں ڈاکٹر زخمیوں کی بھرمار میں گھرے ہوئے تھے اور بھاری بھرکم کیمرے اٹھائے ہوئے صحافی ہسپتال کے ایک بستر سے دوسرے کی جانب دوڑ رہے تھے۔
بستروں کی کمی کی وجہ سے کئی مریض فرش پر پلاسٹک کی شیٹوں پر پڑے ہوئے تھے اور ان کی خون اور ادویات کی بوتلیں ان کے سروں پر لٹک رہی تھیں۔
ڈاکٹر سائمن کے بقول: ’دنیا بھر میں ایسا کوئی ہسپتال نہیں ہے جو زخمیوں کی ایسی اچانک بھرمار سے نبرد آزما ہو سکے۔ تاہم اگر ان کے پاس وہ سہولیات ہوتیں جیسی ہمارے پاس لندن میں ہیں، تو شاید وہ صورتحال کا مقابلہ کر سکتے۔‘
ڈاکٹر نوین کوالے اور ڈاکٹر سائمن کالورٹ نہایت تجربہ کار سرجن ہیں۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے جب 31 ستمبر کی رات کو شفا ہسپتال کے مناظر دیکھے تو وہ دو سو سے زائد بری طرح زخمی افراد کو دیکھ کر چکرا گئے۔
یہ دونوں سرجن لندن کے کنگز کالج ہسپتال کی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم میں شامل تھے جو ان زخمیوں کی مدد کے لیے غزہ گئے تھے جو جنگ میں اپنے ہاتھ یا پاؤں کھو چکے تھے۔
غزہ تو دور کی بات ہے، اپنے اس دورے سے پہلے یہ دونوں برطانوی سرجن کبھی مشرق وسطیٰ بھی نہیں گئے تھے۔
ڈاکٹر سائمن کنگز کالج ہسپتال کے شعبہ حادثات کے سربراہ ہیں۔ بی بی سی بات کرتے ہوئے ان کہنا تھا کہ اگرچہ وہ غزہ جانے کے معاملے میں تذبذب کا شکار تھے، لیکن انھوں نے سوچا کہ اپنے ڈاکٹر ساتھیوں کی مدد کرنا ان کا فرض ہے۔
بستر نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگوں کو وقت سے پہلے گھر جانے کا کہنا پڑا، لیکن ان میں کچھ ایسے ہیں جو اپنا گھر بھی کھو چکے ہیں
’طبی دنیا کے لوگ ایک عالمی برادری کا حصہ ہوتے ہیں اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ضرورت کے وقت اپنے دیگر ساتھیوں کے کام آئیں۔‘
یاد رہے کہ شفا ہسپتال غزہ کا سب سے بڑا ہسپتال ہے، لیکن اس کی گنجائش بھی محض 583 بستروں پر مشتمل ہے۔
برطانوی سرجنوں کے بقول غزہ کے ہسپتالوں کے شعبہ حادثات میں کام کرنا باقی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ جب بھی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تو یہاں کے ہسپتال زخمیوں سے کھچا کھچ بھر جاتے ہیں اور ہسپتال میں موجود تمام سہولیات اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہوتی ہیں۔
دھماکے میں عبداللہ کی ٹانگ اس بری طرح زخمی ہوئی کہ اسے جسم سے الگ کرنا پڑا
اگرچہ غزہ اور غرب اردن کے علاقے میں 27 ہسپتال موجود ہیں، لیکن ان میں اکثر بہت چھوٹے ہیں اور یہاں چند ہی زخمیوں کی دیکھ بھال ہو سکتی ہے۔ صرف شفا، ناصر ہسپتال اور خان یونس کا یورپیئن غزہ ہسپتال ہی وہ تین ہسپتال ہیں جہاں بڑے حادثات سے نمٹے کی سہولیات موجود ہیں۔