Welcome to Inqilab Patel's Blog

Students' Resource centre, developed to facilitate students in their studies.

O/A Level Computer Studies with Inqilab Patel

A Highly experienced, well educated and self motivated computer teacher.

Ruknuddin Patel's Web portal

In touch with tomorrow

Inqilab Patel's Mag

Inqilab Patel's Magazine is a Students Resource Centre. It is developed to facilitate students of IT, O / A Level and Business Administration in their studies and to make them literate on current Global Political Issues.

RIC: Ruknuddin Institute of Computer

RIC: Ruknuddin Insitute of Computer (Management, IT) is established in April 15, 1995 by Inqilab Ruknuddin Patel. It is organising Skill Development Programmes (SDP) in the fields of Information Technology and Business Administration.

Friday 14 August 2015

Injustice in the name of justice

Saleem Safi’s Column Against Asad Umar & his father

Monday 10 August 2015

سانحہ قصور: کیا پاکستان ہندوستان کی طرح اٹھ کھڑا ہو گا؟

 وقت آ گیا ہے کہ اس نیند سے جاگا جائے جس نے کئی سالوں تک کئی بچوں کی معصومیت چھینی ہے۔ — Creative Commons
16 دسمبر 2012 کو میڈیکل کی ایک 23 سالہ طالبہ دہلی کی ایک بس میں سوار ہوئی، اور اسے چند مردوں نے زبردست تشدد اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ پھر اسے چلتی بس سے نیچے پھینک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
اس واقعے کے بعد غیر معمولی عوامی ردِ عمل دیکھنے میں آیا۔ ہندوستان بھر میں وسیع پیمانے پر مظاہرے اور احتجاج دیکھنے میں آئے۔ خواتین کی جانب معاشرے کے رویے، اور ان کے استحصال کے بارے میں زبردست بحثیں ہوئیں۔ جنسی تشدد کو اب چھپایا نہیں جاسکتا تھا، بلکہ اس کا سامنا کرنا تھا۔
ہندوستان اٹھ کھڑا ہوا۔
جسٹس ورما کمیٹی، جسے نظام میں ترامیم کی تجویز کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا، نے بہت مختصر عرصے میں ہی دور رس تجاویز پیش کر دیں۔ کئی تجاویز پر عملدرآمد کیا گیا، اور نتیجے میں خواتین کے تحفظ میں اجتماعی بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ کئی اطلاعات کے مطابق اب زیادتی اور خواتین سے چھیڑ چھاڑ کے معاملات پہلے سے زیادہ رپورٹ کیے جاتے ہیں۔
ہفتے کے روز خبر سامنے آئی کہ قصور کے نواحی گاؤں حسین خان والا میں بچوں سے بدفعلی کی ویڈیوز منظرِعام پر آئی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق 280 بچوں، جن میں سے زیادہ تر 14 سال سے کم عمر کے تھے، کا جنسی استحصال کیا گیا اور انہیں فلمایا گیا۔
ابتدائی رپورٹس کے مطابق یہ ویڈیوز 2006 اور اس کے بعد کی ہیں۔ ملزمان کا گروہ ان والدین کو ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کر کے لاکھوں روپے وصول کیا کرتا، اور عدم ادائیگی پر ویڈیو عام کر دینے کی دھمکیاں دیتا۔
یہ خبر دل دہلا دینے والی ہے۔ اس استحصال کی وسعت اور ان کی شدت غیر معمولی ہے۔ لیکن حکام کی شرمناک خاموشی اتنی حیران کن نہیں ہے۔
اسکینڈل کے سامنے آتے ہے اس کا انکار کر دیا گیا، اور فوراً ہی کوششیں شروع کر دی گئیں کہ الزامات کو سازش قرار دیا جائے، اور اب جب کہ معاملہ کافی گرم ہوچکا ہے، تو کوششیں جاری ہیں کہ اس استحصال کی وسعت کو کمتر ثابت کیا جائے۔
لیکن بھلے ہی قصور میں بچوں سے زیادتی کا واقعہ بہت بڑے پیمانے پر پیش آیا ہے، بچوں سے زیادتی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں بچوں کا استحصال ایک عام بات ہے، اور ہر کوئی ڈھکے چھپے طور پر اس بات پر یقین کرتا ہے، لیکن کھل کر کبھی اظہار نہیں کرتا۔ اس چیز کو اب تبدیل ہونا چاہیے۔
اس مسئلے پر بحث کی مکمل طور پر عدم موجودگی اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ اس نیند سے جاگا جائے جس نے کئی سالوں تک کئی بچوں کی معصومیت چھینی ہے۔
حکام کیا کر رہے ہیں اور کیا نہیں کر رہے، یہ سوال اس وسیع تر بحث کا حصہ نہیں جو ہونی چاہیے۔ سوال یہ ہے، کہ کیا یہ گھناؤنا واقعہ ہمیں ہماری اجتماعی نیند اور سستی سے جگا پائے گا؟ کیا یہ ہر بری چیز کو جھٹلا دینے والی ہماری سوچ کو تبدیل کر پائے گا؟
کچھ گرما گرم ٹاک شوز اور سیاسی جماعتوں کا پوائنٹ اسکورنگ میں ملوث ہونا مدد نہیں دے گا۔ ہمیں اٹھنا پڑے گا، اسی طرح جیسے ہندوستان اٹھ کھڑا ہوا تھا، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو متاثر کرنے والی بیماری اب انہیں مزید متاثر نہ کرے۔
کیا ہم اس طرح سڑکوں پر نکلیں گے جس طرح دہلی کے لوگ نکلے، جس طرح بنگلور کے لوگ نکلے، جس طرح کولکتہ کے لوگ نکلے؟ کیا اسلام آباد، لاہور، اور کراچی اسی طرح کی ہمت نہیں کر سکتے؟
خدا جانتا ہے کہ ہم ان استحصال اور تشدد زدہ بچوں کے قرضدار ہیں، قوم کے وہ بیٹے اور بیٹیاں جن کی معصومیت ہمیشہ کے لیے لٹ چکی ہے۔
اگر ہم سب انصاف کے لیے باہر نکل پڑیں، اور اس طرح کی برائیوں اور ان کی پرورش کرنے والے نظام کو تباہ کر دیں، تو؟
کیا ہم نکلیں گے؟
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں سینیئر اسٹوڈنٹ ہیں، اور سماجی مسائل پر لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔