Welcome to Inqilab Patel's Blog

Students' Resource centre, developed to facilitate students in their studies.

O/A Level Computer Studies with Inqilab Patel

A Highly experienced, well educated and self motivated computer teacher.

Ruknuddin Patel's Web portal

In touch with tomorrow

Inqilab Patel's Mag

Inqilab Patel's Magazine is a Students Resource Centre. It is developed to facilitate students of IT, O / A Level and Business Administration in their studies and to make them literate on current Global Political Issues.

RIC: Ruknuddin Institute of Computer

RIC: Ruknuddin Insitute of Computer (Management, IT) is established in April 15, 1995 by Inqilab Ruknuddin Patel. It is organising Skill Development Programmes (SDP) in the fields of Information Technology and Business Administration.

Friday, 22 July 2016

’پیلٹ گن مارتی نہیں زندہ لاش بنا دیتی ہے‘

Courtesy to BBC Urdu
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورس مظاہرین کو منتشرکرنے کے لیے پیلٹ گن یعنی چھرے والی بندوق کا استعمال کر رہے ہیں۔
یہ بندوق جان لیوا نہیں ہے لیکن ان بندوقوں کے سبب کئی مظاہرین کو شدید چوٹیں لگی ہیں۔
کئی بار مظاہرین کے پاس کھڑے ہوئے لوگ بھی ان سے زخمی ہوئے ہیں اس سے بہت سے لوگوں کی آنکھوں کی روشنی تک چلی گئی ہے۔

پیلٹ گن کیا ہے؟

یہ پمپ کرنے والی بندوق ہے جس میں کئی طرح کے کارتوس استعمال ہوتے ہیں۔یہ کارتوس 5 سے 12 کی رینج میں ہوتے ہیں، پانچ کو سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اثر کافی دور تک ہوتا ہے۔

Image copyrightAARABU AHMAD SULTAN
Image captionاس گن کے استعمال سے کئی لوگ اپنی بینائی کھو چکے ہیں

پیلٹ گن سے تیز رفتار چھوٹے لوہے کے بال فائر کیے جاتے ہیں اور ایک کارتوس میں ایسے لوہے کے 500 تک بال ہو سکتے ہیں۔
فائر کرنے کے بعد کارتوس ہوا میں پھوٹتے ہیں اور چھرے چاروں سمت میں جاتے ہیں۔
پیلٹ گن، عام طور سے شکار کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، کیونکہ اس سے چھرے چاروں طرف بکھرتے ہیں اور شکاری کو اپنے ہدف پر نشانہ لگانے میں آسانی ہوتی ہے۔

Image copyrightAARABU AHMAD SULTAN
Image captionپیلٹ گن سے زخمی ہونے والی آنکھوں کا علاج بہت مہنگا ہے

لیکن کشمیر میں یہ گن انسانوں پر استعمال ہو رہی ہے اورلوگوں میں خوف پیدا کر رہی ہے۔
اس ہتھیار کو 2010 میں کشمیر میں بدامنی کے دوران سکیورٹی فورسز نے استعمال کیا تھا جس سے 100 سے زیادہ مظاہرین کی موت ہو گئی تھی۔

سکیورٹی فورس کیا کہتی ہیں؟

کشمیر میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے پبلک ریلشنز آفیسر راجیشور یادو کہتے ہیں کہ سی آر پی ایف کے جوان مظاہرین سے نمٹنے کے دوران’زیادہ سے زیادہ تحمل‘ برتتے ہیں۔
راجیشور یادو کہتے ہیں ’احتجاج کو ناکام کرنے کے لیے ہم 9 نمبر کی کارٹریجز (کارتوس) استعمال کرتے ہیں اس کا کم سے کم اثر ہوتا ہے اور یہ مہلک نہیں ہے‘۔

Image copyrightAARABU AHMAD SULTAN
Image captionپیلٹ گن سے زخمی ہونے والوں کی بینائی واپس آنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے

لیکن یادو کی بات سے اتفاق نہ کرنے والے ایک اعلیٰ پولیس افسران اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ سکیورٹی فورسز کو مجمے کو منتشر کرنے کے لیے 12 نمبر کے کارتوس استعمال کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ بہت ہی مشکل حالات میں نمبر 9 کارتوس کا استعمال ہونا چاہیے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری تازہ مظاہروں کے دوران دو افراد کی موت ایسی ہی گنز سے ہوئی ہے۔لوگوں نے پیلٹ گنز کے استعمال پر سوال اٹھائے ہیں.
جو لوگ پیلٹ گن کے استعمال سے زخمی ہوتے ہیں، ان کو گھر والوں کو علاج کے لیے کشمیر کے باہر لے جانا پڑتا ہے۔

Image copyrightAARABU AHMAD SULTAN
Image captionشکار کے لیے استعمال ہونے والی اس گن کو کشمیر میں انسانوں پر اسستعمال کیا جا رہا ہے

شمالی کشمیر کے بارہ مولہ علاقے کے رہنے والے کبیر کی پیلٹ گن سے زخمی ہونے کے بعد دونوں آنکھوں کی روشنی چلی گئی ہے.
کبیر کے خاندان کو اس کے علاج کے لیے کافی رقم کا انتظام کرنا پڑا ان کے والد سڑک کے کنارے ریڑی لگا کر بہت ہی مشکل سے گھر چلاتے ہیں.
کبیر کی ماں کہتی ہیں،’مجھے اپنے زیورات فروخت پڑے تاکہ کشمیر کے باہر علاج کا خرچ اٹھایا جا سکے، وہ بھی ناکافی رہا اور ہمیں اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے پیسے قرضے لینے پڑے‘۔
اسی سال مارچ میں 15 سالہ عابد میر کو اس وقت پیلٹ گن سے چوٹ لگی جب وہ ایک شدت پسند کی تدفین سے واپس آ رہے تھے۔

Image copyrightAFP
Image captionکشمیر میں پیلٹ ان کے شکار لوگوں کو علاج مہنگا ہونے کے سبب شدید دشواریوں کا سامنا ہے

میر کے خاندان کو دوسروں سے ادھار مانگ کر اپنے بیٹے کا علاج کرانا پڑا. کشمیر میں ٹھیک طریقے سے علاج نہ ہو پانے کی وجہ ان لوگوں نے امرتسر میں علاج کرنے کا فیصلہ کیا۔
میر کے چچا کا کہنا ہے کہ ’انہیں علاج میں تقریباً دو لاکھ روپے خرچ کرنے پڑے‘۔

’مردوں کی طرح جینے سے موت بہتر‘

جن لوگوں کی پیلٹ گنز لگنے سےبینائی مکمل طور پر چلی جاتی ہے، وہ ذہنی جھٹکا، مایوسی اور ڈپریشن میں ڈوب جاتے ہیں۔
ایک پل میں ان کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہے۔
ڈار گریجویشن کے آخری سال میں تھے جب ان کی آنکھیں پیلٹ سے زخمی ہوئیں۔
ڈار کہتے ہیں، ’مجھے پانچ مرتبہ سرجری کرانی پڑی اور تقریباً ایک سال تک میں مکمل اندھیرے میں رہا۔ اب میری بائیں آنکھ میں تھوڑی روشنی واپس آئی ہے‘۔
انھوں نے کہاجب میری آنکھوں کی روشنی چلی گئی تو میں اکثر اوپر والے سے دعا کرتا تھا کہ وہ مجھے مار ہی ڈالے کیونکہ مردوں کی طرح زندہ رہنے کی بجائے موت بہتر ہے‘۔

Friday, 15 July 2016

Pre-release Winter 2016

Do you need support in solving Pre-release Material for November Exam Paper 2 Computer Science 2210/0478?
WhatsApp Inqilab Patel at +923002724734, email: inqilab@ruknuddin.com or facebook.com/inqilabpatel
#PreRelease2016

Sunday, 10 July 2016

عالمی میڈیا کا عبدالستار ایدھی کو خراج عقیدت

Courtesy to Daily Dawn
عبدالستار ایدھی کی وفات سے جہاں پورا ملک غم کے عالم میں ڈوبا ہوا ہے وہیں، بین الاقوامی میڈیا نہ صرف عبدالستار ایدھی کی افسوسناک وفات پر انسانیت سے ان کی بے لوث محبت کا اعتراف کر رہا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ زبردست خراج عقیدت بھی پیش کر رہا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی ویب سائٹ پر عبدالستار ایدھی کی وفات کی خبر دیتے ہوئے ان کی سادگی، ایمانداری اور سخت محنت کے عزم کو نمایاں کرتے ہوئے ان کی انسانیت کے لیے خدمات کا تفصیلی جائزہ دیا۔
بی بی سی نے اپنی خبر میں لکھا کہ 'مقبول پاکستانی انسان دوست عبدالستار ایدھی جنہوں نے اپنی ساری زندگی غریبوں کے نام کردی وہ 88 کی عمر میں وفات پا گئے۔'
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی ویب سائیٹ پر تحریر کیا گیا کہ جنوبی ایشیائی ملکوں کے کئی لوگ انہیں 'زندہ ولی' مانتے تھے۔


رائٹرز کی خبر میں ہندوستان کی وزیر خارجہ کا بیان بھی شامل کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ”وہ (عبدالستار ایدھی) انتہائی عظیم انسان تھے اور انہوں نے اپنی پوری زندگی انسانیت کے نام کردی۔”
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے بھی عبدالستار ایدھی کی وفات پر انسانیت کے لیے ان کی فلاحی خدمات کا مختصراً جائزہ لیا۔
ہندوستان ٹائمز نے عبدالستار ایدھی کی انسانی خدمت کو نمایاں انداز میں پیش کیا گیا۔ اپنی ویب سائیٹ پر ہندوستان ٹائمز نے عبدالستار ایدھی کی وفات کے متعلق خبر میں لکھا کہ عبدالستار ایدھی نے لاکھوں غریبوں کی مدد کی۔


ہندوستان کے ایک اور نامور اخبار دی ہندوکی ویب سائیٹ پر عظیم سماجی کارکن کی وفات کی خبر کی شہ سرخی کچھ یوں تھی: “عبدالستار ایدھی، پاکستان کے 'فادر ٹریسا' کراچی میں وفات پا گئے۔”
دی انڈین ایکسپریس کی ویب سائیٹ نے خبر میں لکھا کہ،''اپنی تمام زندگی انسانیت اور سماجی خدمات کے نام کرنے والے پاکستان کے مقبول خادم انسانیت، عبدالستار ایدھی 92 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔''


امریکی خبر رساں ادارے وائس آف امریکہ نے اپنی ویب سائیٹ پر عبدالستار ایدھی کی وفات کی خبر دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ''ایدھی اپنی سادہ طبیعت، عاجزانہ طرز زندگی کی وجہ سے مقبول تھے اور انہوں نے 1947 میں ملک کے قیام کے بعد منتخب رہنماؤں سے زیادہ پاکستانی لوگوں کو مدد کی۔ انہیں اکثر پاکستان کا رحمت کا فرشتہ پکارا جاتا تھا۔''
گارجین کی ویب سائیٹ پر ایدھی صاحب سے متعلق خبر کی شہ سرخی میں لکھا گیا کہ ”خادم انسان عبدالستار ایدھی، پاکستان کے 'رحمت کے فرشتے' 88 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔


دی گلف نے بھی دیگر میڈیا کے اداروں کی طرح غریبوں اور مفلسوں کی مدد کے لیے اپنی خدمات پر عبدالستار کو 'رحمت کا فرشتہ' لکھا ہے۔
نیو یارک ٹائمز کی سرخی تھی کہ ''عبدالستار ایدھی، پاکستان کے 'فادر ٹریسا' 88 سال کی عمر میں وفات پا گئے''۔


اس کے ساتھ ساتھ نیو یارک ٹائمز نے ایدھی کے کچھ بیانات کو بھی خبر میں شامل کیا ہے، ایک جگہ ایدھی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ ”لوگ تعلیم یافتہ تو ہو چکے ہیں مگر انہیں ابھی انسان بننا باقی ہے''۔
واشنگٹن پوسٹ کی سرخی تھی کہ ''عبدالستار ایدھی پاکستان کے غریبوں اور ضرورت مندوں کے ہیرو تھے”، خبر میں ایدھی کی بلاامتیازی خدمت انسانی کا اعتراف کیا گیا ہے۔


یاد رہے کہ عبدالستار ایدھی کئی ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ انہیں 1989 میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے نشانِ امتیاز دیا گیا تھا، جبکہ سابقہ سوویت یونین، ہندوستان، فلپائن، اور دیگر کئی ممالک میں انہیں اعلیٰ ترین ایوارڈز اور اعزازی ڈگریوں سے نوازا جا چکا ہے۔