آج ہماری بات کا موضوع نام ہے





بِسْمِ اللّٰھِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمؔ

السلام علیکم ۔


آج ہماری بات کا موضوع نام ہے۔ نام انسان کی پہچان ہے۔ جب صرف نام اس کی پہچان کے لئے کافی نہ ہو تو اس کے باپ کا نام ساتھ میں جوڑ دیا جاتا ہے۔ وہ بھی ایک نام ہے اور پہچان کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے۔ پھر اگر وہ بھی کافی نہ ہو تو اس کی قوم کا نام بھی اس کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ قوم بھی اصل میں اسی شخص کے باپ دادوں کے ا س گروہ کا نام ہوتا ہے جو کسی ایک ہی جدِّ امجد کی اولاد ہوتے ہیں لہٰذا قوم کا نام بھی کسی شخص کی پہچان کا ذریعہ ہوتا ہے۔

نام بڑی اہم چیز ہے کہ لوگ اپنے نام کی شہرت کے لئے کیا کیا کوششیں نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد لوگوں کے اچھے یا برے کاموں کی وجہ سے بعد کے لوگ ان کے ناموں ہی کا ذکر اچھے یا بُرے انداز میں کرتے ہیں۔

کسی کا بھی تعارف سب سے پہلے اُس کے نام سے ہی کروایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کسی کا نام سن کر لوگ اُس کی شخصیت کا اندازہ کرنے لگتے ہیں۔ کسی کے اچھے یا بُرے کام کا ذکر سن کر لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ‘‘نام کیا ہے صاحب کا؟’’

اس قدر اہمیت کے باوجود نام میں کسی کا اپنا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یہ نام بڑوں کا دیا ہؤا ہوتا ہے۔ ویسے نام دینے کی ذمہ داری باپ کی ہوتی ہے ہاں نام میں کچھ اضافہ ہم خود بھی کر سکتے ہیں۔

جب ہم اپنی پہچان اپنے نام سے زیادہ اپنے باپ یا بیٹے /بیٹی کے نام سے کروانا چاہتے ہیں تو یوں کہلواتے ہیں۔ ابنِ سعدؔ، ابنِ علیؔ یا ابو سعیدؔ، ابو سلمہؔ وغیرہ۔ اسے کُنّیت کہا جاتا ہے۔

جب ایک شاعر یا ادیب اپنا ایک قلمی نام استعمال کرتا ہےاور اسی کے ذریعہ اُس کی پہچان ہوتی ہے تو وہ یوں جانا جاتا ہے۔ غالبؔ، منٹوؔ وغیرہ۔ شاعر کے لئے استعمال ہونے والا ایسا نام تخلّص کہلاتا ہے۔ دوسرے ادیبوں کے لئے عموماً اسے قلمی نام ہی کہا جاتا ہے۔

نام میں کچھ دخل اندازی قریبی لوگوں کی بھی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ پیار میں اُس کے نام سے ہی اخذ کرکے ایک چھوٹا سا نام رکھ دیتے ہیں۔ جیسے فیض ؔاللہ یا فیضؔ الرحمٰن کو فیضیؔ کہنا۔ کچھ نام اُس کی جسمانی ساخت سے، کچھ اس کی ذہنی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اور کچھ اُس کی عادتوں سے بھی مأخوذ ہوتے ہیں۔ مثلاً موٹُو ؔ، اچّھنؔ، لیڈر ؔوغیرہ۔ اِس طرح کے نام عرف کہے جاتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی عرفیت کے بغیر نہیں پہچانے جاتے۔

کچھ نام عوام کی طرف سے بھی دے دئے جاتے ہیں جیسے قائدِؔ اعظم و غیرہ جو لقب کہلاتے ہیں۔ کچھ القاب بہت عام ہوتے ہیں جو کسی کے بھی اعزاز میں اس کے نام کے ساتھ لگا دئے جاتے ہیں جیسے حضورؔ، حضرتؔ، صاحبؔ، جنابؔ و غیرہ۔

حکومت تک اِس کام میں حصہ دار بنتی ہے جب وہ کسی کی اعلٰی کارکردگی پر اسے کوئی اعزازی نام عطا کر دیتی ہے۔ یہ نام خطاب کہلاتا ہے۔ جیسے شمسؔ العلما ٔ و غیرہ۔

کسی شخص کے لئے کوئی کنّیت، کوئی تخلّص، عرفیت، لقب یا خطاب اگر ہو تو وہ اُس کے نام میں ایک اضافہ ہے، خود نام نہیں ہے۔ ایک نام ہر کسی کا ہوتا ہے اور لازماً ہونا چاہیئے، چاہے اُس کا کوئی اور اضافی نام ہو یا نہ ہو۔

اِس سے کسی شخص کے اُس نام کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو اسے اُس کی پیدائش پر اُس کے بڑوں نے دیا ہوتا ہے۔ ساتھ ساتھ اِس سے ان بڑوں کی ذمہ داری کا بھی پتہ چلتا ہے کہ انہیں یہ نام کتنی احتیاط کے ساتھ طے کرنا چاہیئے۔

نام رکھتے ہوئے درکار احتیاطیں:

۱ نام نام ہی ہو ، کوئی کنّیت، لقب، خطاب یا عرفیت نہ ہو۔

جیسے کچھ لوگ بچّوں کے نام ابو بکرؔ، ابو ہریرہ ؔ و غیرہ رکھ دیتے ہیں؛ لوگوں نے اپنے بچوں کے نام جنابؔ اور حضورؔ بھی رکھ دئے ہیں؛ کسی کے بچّے کا نام صاحبِ ؔعالم بھی ہے؛ اور کچھ تو بے چارے بڑے ہو کر بھی بڑے نہ ہو سکے۔ بوڑھی ہو کر بھی اُس کا نام گُڑیاؔ کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ ایک صاحب کا پاسپورٹ دیکھنے کا اتّفاق ہؤا۔ اِس ۵۶ سالہ شخص کے پاسپورٹ میں اُس کا نام مُنّاؔ تھا۔

۲۔ نام کوئی اسم ہو ، فعل یا حرف نہ ہو۔

جیسے کچھ لوگوں نے أَنْعَمْتَ ؔ(تو نے انعام کیا) یا اَنْزَلْنَا ؔ(ہم نے نازل کیا) و غیرہ نام اِس لئے رکھ دئے ہیں کہ یہ الفاظ قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں۔ بغیر سمجھے ہوئے قرآن مجید سے الفاظ نکال کر نام رکھ دینا بہت بُرا بھی ہو سکتا ہےکیونکہ قرآن مجید تو ظالموں اور فاسقوں کے بارے میں بھی بات کرتا ہے۔۔۔ اور اس کی تو بات ہی کیا جب نام، کیونکہ وہ نام کتابِ مقدّس میں ہے، اس لئے یوں رکھ دیا جائے۔

فَھِیَ ؔ(تو وہ) یا یوں رکھ دیا جائے۔ لَا رَیْبَؔ (کوئی شک نہیں)۔

۳۔ نام واحد ہو ، تثنیہ (دو) یا جمع (دو سے زیادہ ) نہ ہو۔

جیسے ثقلین ؔ(دو بھاری مخلوق) یا حسنینؔ (دو حسن) یعنی حسنؓ اور حسینؓ کی نسبت سے فردِ واحد کا نام تثنیہ میں رکھ دیا جاتا ہے۔ نسبت سے نام رکھنا اچھا ہے۔ حسنؔ رکھیئے، حسینؔ رکھیئے۔ بہت خوبصورت نام ہیں، ان کے تو معنٰی ہی خوبصورت کے ہیں مگر عدد کا لحاظ نہ رکھنے سے نام غیر درست ہو جاتا ہے۔ جب نام صحیح نہ ہو تو وہ اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟۔ جمع کی بھی بے شمار مثالیں ہیں کہ ایک فرد کا نام واحد کے بجائے جمع میں رکھ دیا جاتا ہے۔ نمونے کے طور پر انجم ؔ(بہت سارے ستارے)، کائناتؔ (بہت ساری وقوع پزیر ہونے والیاں، وجود میں آنے والیاں) وغیرہ۔

۴۔ بیٹے کا نام مذکّر اور بیٹی کا نام مؤنث ہو ، نام اس کے بر عکس نہ ہو۔

لڑکوں کے ناموں میں یہ خامی بہت کم پائی جاتی ہے جیسے نسیم ؔ(ہَوا)۔ مگر لڑکیوں کے ناموں کے ساتھ یہ خامی اور عدم احتیاط بہت ہی زیادہ ہے۔ مثالیں بے شمار ہیں ، طوالت سے بچنے کے لئے چند ایک پر ہی اکتفأ کرنا ہوگا۔ جیسے اَنْعَم ؔ، اَیْمَنؔ ، کُلثُوْم ؔ، نُوْرؔ وغیرہ۔ پچھلے وقتوں میں مذکّر ناموں میں ایک نؔ یا یؔ کے اضافے سے نام مؤنث بنائے جاتے رہے۔ جیسے نفیسؔ سے نفیسنؔ(صحیح ہے ‘نفیسہؔ’)، اصغرؔ سے اصغریؔ (صحیح ہے ‘صغرٰیؔ’) و غیرہ۔

۵۔ نام مفرد ہو یا مرکّب مگر ایک ہو ، دو یا دو سے زیادہ نہ ہوں۔

نام کے ساتھ بغیر سوچے سمجھے کِیا گیا یہ سلوک ہمیں اُس مقام تک لے آیا ہےکہ اب اُس سے واپسی بہت مشکل نظر آتی ہے۔ بہرحال، وہ، جو اب اس ذمہ داری اٹھانے کے مقام کوپہنچ رہے ہیں، اگر وہ اصلاح کر لیں تو آئندہ یہ تبدیلی ممکن ہے۔ ۔۔ مشکل یہ ہے کہ لوگوں نے اپنے بچوں کے نام کے ساتھ اپنا نام بغیر کسی ولدیت و غیرہ کے اشارے کے شامل کر دیا ہے۔ جیسے سلمانؔ خورشید (صحیح ہے ‘سلمانؔ بن خورشیدؔ’)، حمزہؔ حفیظ (صحیح ہے ‘حمزہ ؔبن عبدِؔالحفیظ’) وغیرہ۔ دوہرے نام تب اور مضحکہ خیز ہو جاتے ہیں جب لڑکیوں کے نام یوں ہوتے ہیں۔ مریمؔ مصطفٰے (صحیح ہے ‘مریمؔ بنتِ مصطفٰےؔ’)، فاطمہؔ قیّوم (صحیح ہے ‘فاطمہؔ بنتِ عبدِؔالقیّوم’)وغیرہ۔

یہ وہ نکات ہیں جن سے صرفِ نظر نہیں کِیا جا سکتا کیونکہ اس سے نام میں غلطی واقع ہوتی ہے۔ اولاد کا چھوٹا اور پیارا سا یہ حق ادا کرتے ہوئے اگر ہم محتاط نہیں ہوتے تو اولاد کا والدین کے بہت سارے حقوق ادا نہ کرنا بھی تو اِسی عدم احتیاط کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ۔۔ بڑے احتیاط نہ کریں پھر چھوٹوں سے اُسی وصف (احتیاط) کی توقع کریں تو یہ خاصی غیر معقول بات ہے۔

اب کچھ مزید احتیاط بیان کی جاتی ہیں جن سے ناموں کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

۶۔ نام حقیقی ہو ، تجریدی نہ ہو۔

جیسے دعاؔ، ایمانؔ، تہذیبؔ ، اخلاقؔ وغیرہ۔

۷۔ نام اچھے وصف والا ہو مگر خود ستائش کا مفہوم نہ دیتا ہو۔

جیسے برّہؔ (بہت ہی زیادہ نیک)، اشرف ؔ(سب سے زیادہ شریف) وغیرہ۔

۸۔ نام صرف آپ کے کانوں کو اچھا نہ لگتا ہو ، بلکہ معناً بھی اچھا ہو۔

ایک قبرستان جانے کا اتفاق ہؤا تو وہاں ایک کتبہ دیکھا جو کسی خاتون کی قبر پر لگا تھا جو کہ ستّر ۔ اسّی برس کی عمر میں فوت ہوئی تھیں جیسا کہ کتبے میں درج تاریخوں سے پتہ چلتا تھا۔ ان کا نام جو کتبہ پر جلّی حروف میں لکھا ہؤا تھا وہ تھا۔۔ زانیہؔ بیگم۔

۹۔ نام کسی بھی زبان میں رکھا جا سکتا ہے اس کا عربی میں ہونا ضروری نہیں ہے۔

ہمارے یہاں زیادہ تر نام عربی میں رکھے جاتے ہیں جو اچھا تو ہے مگر ضروری نہیں ہے۔ بہت سے نام ہمارے یہاں فارسی زبان سے آئے ہیں جیسے جاویدؔ، جمشیدؔ وغیرہ۔ کچھ نام ہندی اردو کےبھی ہیں جیسے کِرنؔ، کوملؔ وغیرہ اور اِس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

۱۰۔ نام ایسا ہو جو لوگوں کی زبان پر آسان ہو ، ادائگی میں مشکل نہ ہو۔

کچھ لوگ نام رکھتے ہوئے یہ احتیاط نہیں کرتے اور پھر جس طرح دوسرے لوگ اُس نام کو ادا کرتے ہیں اُس سے اُس کے معنٰی میں ہی تغیّر پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً عامرؔ سے آمرؔ، اعزّ ؔسے آز ؔ، طلحہؔ سے تلاؔ و غیرہ۔

یہ ہوئے دس نکات۔ امید ہے اپنے پیارے بچوں کو نام دیتے ہوئے آپ ان نکات کو ذہن میں رکھیں گے تاکہ جب بچہ سمجھ دار ہو جائے تو کبھی اُسے آپ کے دیئے ہوئے اِس نام پر آپ سے شکایت نہ ہو اور جو بعد میں بھی کبھی آپ کے لئے اور آپ کے بچے کے لئے تا حیات شرمندگی کا باعث نہ بنے۔ بات ختم ہوئی۔ اللہ تعالٰی اصلاح کے اس کام میں ہم سب کی مدد فرمائے! آمین، یا ربَّ العالمین! السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

محمد طارق انصاری

http://pathlights.tumblr.comPhoto: ‎بِسْمِ اللّٰھِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمؔ
السلام علیکم ۔

آج ہماری بات کا موضوع نام ہے۔ نام انسان کی پہچان ہے۔ جب صرف نام اس کی پہچان کے لئے کافی نہ ہو تو اس کے باپ کا نام ساتھ میں جوڑ دیا جاتا ہے۔ وہ بھی ایک نام ہے اور پہچان کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے۔ پھر اگر وہ بھی کافی نہ ہو تو اس کی قوم کا نام بھی اس کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ قوم بھی اصل میں اسی شخص کے باپ دادوں کے ا س گروہ کا نام ہوتا ہے جو کسی ایک ہی جدِّ  امجد کی اولاد ہوتے ہیں لہٰذا  قوم کا نام بھی کسی شخص کی پہچان کا ذریعہ ہوتا ہے۔

نام بڑی اہم چیز ہے کہ لوگ اپنے نام کی شہرت کے لئے کیا کیا کوششیں نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد لوگوں کے اچھے یا برے کاموں کی وجہ سے بعد کے لوگ ان کے ناموں ہی کا ذکر اچھے یا  بُرے انداز میں کرتے ہیں۔

کسی کا بھی تعارف سب سے پہلے اُس کے نام سے ہی کروایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کسی کا نام سن کر لوگ اُس کی شخصیت کا اندازہ کرنے لگتے ہیں۔ کسی کے اچھے یا  بُرے کام کا ذکر سن کر لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ‘‘نام کیا ہے صاحب کا؟’’

اس قدر اہمیت کے باوجود نام میں کسی کا اپنا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یہ نام بڑوں کا دیا ہؤا ہوتا ہے۔ ویسے نام دینے کی ذمہ داری باپ کی ہوتی ہے ہاں نام میں کچھ اضافہ ہم خود بھی کر سکتے ہیں۔

 جب ہم اپنی پہچان اپنے نام سے زیادہ اپنے باپ یا بیٹے /بیٹی کے نام سے کروانا چاہتے ہیں تو یوں کہلواتے ہیں۔ ابنِ سعدؔ، ابنِ علیؔ یا ابو سعیدؔ، ابو سلمہؔ وغیرہ۔ اسے کُنّیت کہا جاتا ہے۔

جب ایک شاعر یا ادیب اپنا ایک قلمی نام استعمال کرتا ہےاور اسی کے ذریعہ اُس کی پہچان ہوتی ہے تو وہ یوں جانا جاتا ہے۔ غالبؔ، منٹوؔ  وغیرہ۔ شاعر کے لئے استعمال ہونے والا ایسا نام تخلّص کہلاتا ہے۔ دوسرے ادیبوں کے لئے عموماً اسے قلمی نام ہی کہا جاتا ہے۔  

نام میں کچھ دخل اندازی قریبی لوگوں کی بھی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ پیار میں اُس کے نام سے ہی اخذ کرکے ایک چھوٹا سا نام رکھ دیتے ہیں۔ جیسے فیض ؔاللہ یا فیضؔ الرحمٰن  کو فیضیؔ کہنا۔ کچھ نام اُس کی جسمانی ساخت سے، کچھ اس کی ذہنی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اور کچھ  اُس کی عادتوں سے بھی مأخوذ ہوتے ہیں۔ مثلاً موٹُو ؔ،  اچّھنؔ، لیڈر ؔوغیرہ۔ اِس طرح کے نام عرف کہے جاتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی عرفیت کے بغیر نہیں پہچانے جاتے۔ 

کچھ نام عوام کی طرف سے بھی دے دئے جاتے ہیں جیسے قائدِؔ اعظم و غیرہ جو لقب کہلاتے ہیں۔ کچھ القاب بہت عام ہوتے ہیں جو کسی کے بھی اعزاز میں اس کے نام کے ساتھ لگا دئے جاتے ہیں جیسے حضورؔ، حضرتؔ، صاحبؔ، جنابؔ و غیرہ۔

حکومت تک اِس کام میں حصہ دار بنتی ہے جب وہ کسی کی اعلٰی کارکردگی پر اسے کوئی اعزازی نام عطا کر دیتی ہے۔ یہ نام خطاب کہلاتا ہے۔ جیسے شمسؔ العلما ٔ  و غیرہ۔

کسی شخص کے لئے کوئی کنّیت، کوئی تخلّص، عرفیت، لقب یا خطاب اگر ہو تو وہ اُس کے نام میں ایک اضافہ ہے، خود نام نہیں ہے۔ ایک نام ہر کسی کا ہوتا ہے اور لازماً  ہونا چاہیئے، چاہے اُس کا کوئی اور اضافی نام ہو  یا نہ ہو۔

اِس سے کسی شخص کے اُس نام کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو اسے اُس کی پیدائش پر اُس کے بڑوں نے دیا ہوتا ہے۔ ساتھ ساتھ اِس سے ان بڑوں کی  ذمہ داری کا بھی  پتہ چلتا ہے کہ انہیں یہ نام کتنی احتیاط کے ساتھ طے کرنا چاہیئے۔

نام رکھتے ہوئے  درکار احتیاطیں:

۱ نام نام ہی ہو  ، کوئی کنّیت، لقب، خطاب یا عرفیت نہ ہو۔

جیسے کچھ لوگ بچّوں کے نام  ابو بکرؔ، ابو ہریرہ ؔ و غیرہ  رکھ دیتے ہیں؛ لوگوں نے اپنے بچوں کے نام جنابؔ اور  حضورؔ بھی رکھ دئے ہیں؛ کسی کے بچّے کا نام صاحبِ ؔعالم بھی ہے؛  اور کچھ تو بے چارے بڑے ہو کر بھی بڑے نہ ہو سکے۔ بوڑھی ہو کر بھی اُس کا نام   گُڑیاؔ کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔  ایک صاحب کا پاسپورٹ دیکھنے کا اتّفاق ہؤا۔  اِس ۵۶ سالہ شخص کے پاسپورٹ میں اُس کا نام مُنّاؔ  تھا۔

۲۔ نام کوئی اسم ہو  ، فعل یا حرف نہ ہو۔

جیسے کچھ لوگوں نے  أَنْعَمْتَ ؔ(تو نے انعام کیا) یا  اَنْزَلْنَا ؔ(ہم نے نازل کیا) و غیرہ نام اِس لئے رکھ دئے ہیں کہ یہ الفاظ قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں۔ بغیر سمجھے ہوئے قرآن مجید سے الفاظ نکال کر   نام رکھ دینا بہت بُرا بھی ہو سکتا ہےکیونکہ قرآن مجید  تو ظالموں اور فاسقوں کے بارے میں بھی بات کرتا ہے۔۔۔ اور اس کی تو بات ہی کیا جب نام، کیونکہ وہ نام کتابِ مقدّس میں ہے، اس لئے یوں رکھ دیا جائے۔

فَھِیَ ؔ(تو وہ) یا یوں رکھ دیا جائے۔ لَا رَیْبَؔ (کوئی شک نہیں)۔

۳۔ نام واحد ہو ، تثنیہ (دو) یا جمع  (دو سے زیادہ ) نہ ہو۔

جیسے ثقلین ؔ(دو بھاری مخلوق) یا حسنینؔ (دو حسن) یعنی حسنؓ اور حسینؓ کی نسبت سے فردِ واحد کا نام تثنیہ میں رکھ دیا جاتا ہے۔ نسبت سے نام رکھنا اچھا ہے۔ حسنؔ رکھیئے، حسینؔ رکھیئے۔ بہت خوبصورت نام ہیں، ان کے تو معنٰی ہی خوبصورت کے ہیں مگر  عدد کا لحاظ نہ رکھنے سے نام غیر درست ہو جاتا ہے۔  جب نام صحیح نہ ہو تو وہ اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟۔   جمع کی بھی بے شمار مثالیں ہیں کہ ایک فرد کا نام واحد کے بجائے جمع میں رکھ دیا جاتا ہے۔  نمونے کے طور پر  انجم ؔ(بہت سارے ستارے)، کائناتؔ (بہت ساری وقوع  پزیر ہونے والیاں، وجود میں آنے والیاں) وغیرہ۔ 

۴۔ بیٹے کا نام مذکّر اور بیٹی کا نام مؤنث ہو ، نام اس کے بر عکس نہ ہو۔

لڑکوں کے ناموں میں یہ خامی بہت کم پائی جاتی ہے جیسے نسیم ؔ(ہَوا)۔ مگر لڑکیوں کے ناموں کے ساتھ یہ خامی اور عدم احتیاط بہت ہی  زیادہ ہے۔ مثالیں بے شمار ہیں ، طوالت سے بچنے کے لئے چند ایک پر ہی اکتفأ کرنا ہوگا۔ جیسے اَنْعَم ؔ، اَیْمَنؔ ، کُلثُوْم ؔ، نُوْرؔ  وغیرہ۔  پچھلے وقتوں میں مذکّر ناموں میں ایک نؔ یا  یؔ  کے اضافے سے نام مؤنث بنائے جاتے رہے۔ جیسے نفیسؔ سے نفیسنؔ(صحیح ہے ‘نفیسہؔ’)، اصغرؔ سے اصغریؔ (صحیح ہے ‘صغرٰیؔ’) و غیرہ۔

۵۔ نام مفرد ہو یا مرکّب مگر ایک ہو ، دو یا دو سے زیادہ نہ ہوں۔

نام کے ساتھ بغیر سوچے سمجھے کِیا گیا یہ سلوک ہمیں اُس مقام تک لے آیا ہےکہ اب اُس سے واپسی بہت مشکل نظر آتی ہے۔ بہرحال، وہ، جو    اب اس ذمہ داری اٹھانے کے مقام کوپہنچ رہے ہیں، اگر  وہ اصلاح کر لیں تو  آئندہ یہ تبدیلی ممکن ہے۔ ۔۔ مشکل یہ ہے کہ لوگوں نے اپنے بچوں کے نام کے ساتھ اپنا نام بغیر کسی ولدیت و غیرہ کے اشارے کے شامل کر دیا ہے۔ جیسے سلمانؔ خورشید (صحیح ہے ‘سلمانؔ بن خورشیدؔ’)، حمزہؔ حفیظ (صحیح ہے ‘حمزہ ؔبن عبدِؔالحفیظ’) وغیرہ۔ دوہرے نام تب اور مضحکہ خیز ہو جاتے ہیں جب لڑکیوں کے نام یوں ہوتے ہیں۔ مریمؔ مصطفٰے (صحیح ہے ‘مریمؔ بنتِ مصطفٰےؔ’)، فاطمہؔ قیّوم (صحیح ہے ‘فاطمہؔ بنتِ عبدِؔالقیّوم’)وغیرہ۔

یہ وہ نکات ہیں جن سے صرفِ نظر نہیں کِیا جا سکتا کیونکہ اس سے نام میں غلطی واقع ہوتی ہے۔  اولاد کا چھوٹا اور پیارا  سا یہ حق ادا کرتے ہوئے اگر ہم محتاط نہیں ہوتے تو اولاد کا والدین کے بہت سارے حقوق ادا  نہ کرنا بھی تو  اِسی عدم احتیاط کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ۔۔ بڑے احتیاط نہ کریں پھر چھوٹوں سے اُسی وصف (احتیاط) کی توقع کریں تو یہ خاصی غیر معقول بات ہے۔

اب کچھ مزید احتیاط بیان کی جاتی ہیں جن سے ناموں کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

۶۔ نام حقیقی ہو ، تجریدی نہ ہو۔

جیسے دعاؔ، ایمانؔ، تہذیبؔ ، اخلاقؔ وغیرہ۔

۷۔ نام اچھے وصف والا ہو مگر خود ستائش کا مفہوم نہ دیتا ہو۔

جیسے برّہؔ (بہت ہی زیادہ نیک)، اشرف ؔ(سب سے زیادہ شریف) وغیرہ۔

۸۔ نام صرف آپ کے کانوں کو اچھا نہ لگتا ہو ، بلکہ معناً بھی اچھا ہو۔

ایک قبرستان جانے کا اتفاق ہؤا  تو  وہاں ایک کتبہ دیکھا جو کسی خاتون کی قبر  پر لگا تھا جو کہ ستّر ۔ اسّی برس کی عمر میں فوت ہوئی تھیں جیسا کہ کتبے میں درج تاریخوں سے پتہ چلتا تھا۔ ان کا نام جو کتبہ پر جلّی حروف میں لکھا ہؤا  تھا وہ تھا۔۔ زانیہؔ بیگم۔

۹۔ نام کسی بھی زبان میں رکھا جا سکتا ہے اس کا عربی میں ہونا ضروری نہیں ہے۔

ہمارے یہاں زیادہ تر نام عربی میں رکھے جاتے ہیں جو اچھا تو ہے مگر ضروری نہیں ہے۔ بہت سے نام ہمارے یہاں فارسی زبان سے آئے ہیں جیسے جاویدؔ، جمشیدؔ وغیرہ۔ کچھ نام ہندی اردو کےبھی ہیں جیسے کِرنؔ، کوملؔ وغیرہ اور اِس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

۱۰۔ نام ایسا ہو جو لوگوں کی زبان پر  آسان ہو ، ادائگی میں مشکل نہ ہو۔

کچھ لوگ نام رکھتے ہوئے یہ احتیاط نہیں کرتے اور پھر جس طرح دوسرے لوگ اُس نام کو ادا کرتے  ہیں اُس سے اُس کے معنٰی میں ہی تغیّر پیدا  ہو جاتا ہے۔ مثلاً عامرؔ سے آمرؔ، اعزّ  ؔسے آز ؔ، طلحہؔ سے تلاؔ  و غیرہ۔

یہ ہوئے دس نکات۔  امید ہے اپنے پیارے بچوں کو نام دیتے ہوئے آپ ان نکات کو ذہن میں رکھیں گے تاکہ جب بچہ سمجھ دار ہو جائے تو کبھی اُسے آپ کے دیئے ہوئے  اِس نام پر آپ سے شکایت نہ ہو اور  جو بعد میں بھی کبھی  آپ کے لئے اور آپ کے بچے  کے لئے تا حیات شرمندگی کا باعث  نہ بنے۔ بات ختم ہوئی۔  اللہ تعالٰی اصلاح کے اس کام میں ہم سب کی مدد فرمائے! آمین، یا ربَّ العالمین!  السّلام علیکم  و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

محمد طارق انصاری

http://pathlights.tumblr.com/#‎

0 comments:

Post a Comment