نظر اتارنے میں کیا حرج؟
ڈاکٹر تو بڑے بھائی کو بننا تھا مگر جب حادثاتی طور پر ڈوبنے کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی تو والدہ کی خواہش کے احترام میں چھوٹے بیٹے ادیب الحسن رضوی نے خاموشی سے انجینئرنگ کے مضامین کو خیر باد کہا اور طب کے شعبے کو اپنا لیا۔
1972 میں انگلینڈ سے سرجری میں مہارت کے بعد واپسی ہوئی۔ ادیب صاحب برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ سروس نظام سے بہت متاثر تھے اور بائیں بازو کے طالبعلمانہ پس منظر کے سبب ہر انسان کے بلاامتیاز مفت علاج کے حق پر شدت سے قائم تھے۔
پر جواں سال ادیب الحسن کو نہیں معلوم تھا کہ یہ سب کیسے ہوگا۔
سول ہسپتال کراچی میں آٹھ بستروں پر مشتمل یورولوجی کے شعبے سے ابتدا کی۔ 1989 میں یورولوجی وارڈ میں گردوں کے مفت ڈائلیسس کی سہولت قائم ہوئی لیکن ڈائلیسس کسی مریض کی زندگی میں چند برس کا اضافہ تو کرسکتا تھا اسے معمول کی زندگی نہیں دے سکتا تھا۔
چنانچہ ڈاکٹر ادیب الحسن نے آس پاس کے طبی ماہرین کے سمجھانے بجھانے کے باوجود ایک مریض پر 1985 میں کڈنی ٹرانسپلانٹ کا جوا کھیلا اور پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہوگیا جہاں کڈنی ٹرانسپلانٹ کا مہنگا عمل بیرونِ ملک جائے بغیر اور مریض کے امیر و کبیر ہوئے بغیر بھی ممکن ہوگیا۔
یوں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن باقی دنیا سے بھی متعارف ہوگیا۔
مگر اتنا مہنگا علاج مختصر سے سرکاری بجٹ میں مفت کرنا ناممکن سا خواب تھا۔چنانچہ خداترس رؤسا نے انسٹی ٹیوٹ کا ہاتھ تھاما اور کروڑوں روپے مالیت کا انفراسٹرکچر ، جدید طبی آلات و تربیت اور مریضوں کی دیکھ بھال کا ہمالیہ سر کرنے کی راہ نکلی۔
2003 میں ایک اور سنگِ میل طے ہوا اور جگر کے ٹرانسپلانٹ کا مرحلہ کامیابی سے عبور ہوگیا
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ افراد صرف اس لیے مر جاتے ہیں کہ ان کے ناکارہ اعضا کی تبدیلی کے لیے صحت مند اعضا عطیہ کرنے والے نہیں ملتے۔
اس رکاوٹ کو علماِ کرام کے فتووں اور پارلیمانی قانون سازی کے ذریعے اگرچہ دور کر لیا گیا ہے ، اس کے باوجود اب تک لگ بھگ پانچ ہزار افراد نے ہی بعد ازمرگ اپنے اعضا عطیہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بقول ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ایک ڈونر اگر چاہے تو مرنے کے بعد اپنے مختلف اعضا کے عطیے سے 17 مریضوں کو نئی زندگی دے سکتا ہے۔
آج تصویر یوں ہے کہ ایس آئی یو ٹی دنیا کا سب سے بڑا ڈونر ٹرانسپلانٹ سینٹر بن چکا ہے۔یہاں 31 برس کے دوران گردے کی ٹرانسپلانٹیشن کے لگ بھگ پانچ ہزار کامیاب آپریشن ہو چکے ہیں۔ہر ہفتے 12 ٹرانسپلانٹ اور 750 ڈائلیسس ہو رہے ہیں۔
ایس آئی یو ٹی پاکستان کے مختلف علاقوں میں آٹھ ذیلی مراکز قائم کر چکا ہے۔ افغانستان تک سے لاچار مریض آتے ہیں۔ کسی کو واپس نہیں لوٹایا جاتا اور کسی سے رقم نہیں لی جاتی۔ہر سال دس لاکھ سے زائد مریض ایس آئی یو ٹی کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
اس پس منظر میں جب دو روز قبل ایک چینل اور ایک اخبار یہ خبر سامنے لائے کہ ایس آئی یو ٹی میں حیدرآباد سے ڈائلیسس کے لیے آنے والی ایک مریضہ کا گینگ ریپ ہوا ہے تو دل و دماغ کو دس ہزار وولٹ کا جھٹکا لگا۔
کراچی کے عیدگاہ تھانے میں مریضہ کے ایک رشتے دار صدام کی مدعیت میں ایس آئی یو ٹی کے چھ نامعلوم ملزموں کے خلاف ایف آئی آر کٹی۔ ریپ کی تصدیقی میڈیکل رپورٹ بھی آ گئی۔
پولیس نے جب ایس آئی یو ٹی کے اندر جگہ جگہ نصب سی سی ٹی وی کیمروں کے فوٹیج کی تفصیلی چھان پھٹک کی تو ایسے کسی واقعہ کا سراغ نہ مل پایا۔ مریضہ جتنی دیر بھی ایس آئی یو ٹی میں رہی اس کی فوٹیج موجود ہے۔
بالاخر پولیس کی اضافی تفتیش کے نتیجے میں ایف آئی ار درج کرانے والے مدعی صدام نے اعتراف کیا کہ ریپ ہوا مگر ایس آئی یو ٹی میں نہیں، اس گھر میں کہ جہاں مریضہ ٹھہری ہوئی تھی۔
پولیس نے اب غلط بیانی کے جرم میں مدعی ، مریضہ اور اس کی بہن کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایس آئی یو ٹی کے ترجمان ڈاکٹر بخش علی کا کہنا ہے کہ یہ ڈرامہ شائد اس لیے رچایا گیا تاکہ رمضان کے مہینے میں ایس آئی یو ٹی کو چندہ دینے والی خلقِ خدا کو برگشتہ کیا جاسکے یا ممکن ہے کہ کوئی اور سازش ہو۔
ماضی میں عبدالستار ایدھی کو بھی یہ الزام لگا کر متنازع بنانے کی کوشش کی گئی کہ ایدھی کا عملہ لاوارث لاشیں طبی اداروں یا جادو ٹونے والوں کو فروخت کرتا ہے۔
ایسے اداروں اور شخصیات پر الزام لگانے والے اکثر جوابی سوالات کی تاب نہیں لا پاتے اور کسی پتلی گلی میں گم ہوجاتے ہیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن اور ایس آئی یو ٹی جیسے اداروں کو بقول میری نانی لال مرچوں کی نظر اکثر اتارتے رہنا چاہیے کیونکہ حسد، لالچ اور سازش کی بلائیں تو شکار کی تلاش میں منڈلاتی ہی رہتی ہیں۔
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی۔
0 comments:
Post a Comment