Tuesday 15 November 2016

مان نا مان، میں تیرا ابا جان


اساتذہ والدین ملاقات یعنی پیرنٹ ٹیچر میٹنگ کے دن ایک والد صاحب تشریف لائے
بحیثیت جماعت معلمہ یعنی کلاس ٹیچرکے معلمہ سے انکی بات ہوئی، موصوف درجہ دہم کے اساتذہ کے بارے میں فرمانے لگے، " مذاق لگا رکھا ہے آپ لوگوں نے،اپنے "فرض" کا کوئی احساس ہے یا نہیں؟؟ میرے بیٹا بتا رہا ہے کہ ٹیچر صاحب "تھوڑا سا" پڑھا کر باقی سب ہوم ورک دے دیتے ہیں، ہم اتنی بھاری فیس اسلئے بھرتے ہیں کہ ٹیچرز پڑھائے بغیرہماری دی ہوئی فیسوں پہ عیش کریں؟؟؟ والدین فیس نہ دیں تو سیلری رک جائیں گی آپ لوگوں کی!!!!
معلمہ نے تحمل سے انکی دولت اور مرتبے کے گھمنڈ میں ڈوبی ہوئی بات سنی اور کہا،"سر! پہلی بات یہ کہ آپ اگر فیس نہیں دیںگے تو ہماری سیلری رکنے سے پہلے آپ کی اولاد کا اسکول سے نام کٹ جائے گا لہذا ہماری فکر سے پہلے اپنے بچؔے کی تعلیم کی فکر کریں اور۔۔۔۔ والد صاحب نے منہ کھولتے ہوئے کچھ کہنا چاہا، معلمہ نے سیدھا ہاتھ اٹھا کر انہیں روکا اور انتہائی سرد لہجے میں کہا، میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی، اخلاقیات کا تقاضہ ہے کہ اگر میں نے آپ کی مکمل بات سنی ہے تو آپ بھی مجھے اپنی بات مکمل کرنے دیں۔۔۔۔۔۔
دوسری بات یہ کہ آپ کی اداشدہ فیس آپ کے بچے کی تعلیم کا معاوضہ ہے اورہم اساتذہ کی تنخواہیں ہماری تدریسی خدمات کا معاوضہ ہیں جو اسکول انتظامیہ نے حاصل کی ہیں آپ نے نہیں
تیسری بات یہ کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اساتذہ آپ کے بقول "تھوڑا سا" پڑھا کر باقی طلبہ پہ چھوڑ دیتے ہیں تو آپ آذاد ہیں، آپ پورا نہیں آدھا ہی پڑھا دیں، ہم اساتذہ بیک وقت پچیس سے پیتینس طلبہ پڑھاتے ہیں، آپ فقط ایک کو ہی پڑھا دیں، اتنا تو آپ پہ آپ کے بچے کا "حق" ہے کہ نہیں؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پھر کیا ہوا غالباً یہ اتنا اہم نہیں لیکن اہم یہ ہے کہ "ہمارے پیسوں سے، ہمارے ٹیکسوں سے انکو تنخواہ ملتی ہے" کی سوچ اتنی پختہ ہوچکی ہے کہ ابؔا کی تنخواہ/جائیداد/کاروبار پہ پلنے والے اور سارا دن مفت کی روٹیاں توڑ کر عیاشی کرنے والے بھی اپنی نام نہاد کمائی کا احسان کبھی نجی محفلوں تو کبھی سوشل میڈیا پہ جتا رہے ہوتے ہیں، خاص نظرِ کرم فوج اور اس سے متعلقہ اداروں پہ ہوتی ہے
جہاں دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہوا، سارے ممی ڈیڈی سوال پوچھنے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ فوج کیا کر رہی ہے، فیس بک پہ لکھا ہوا ایک جملہ تو سیاہ ترین حرفوں سے لکھنے کے قابل ہے کہ" ہم "اپنا پیٹ کاٹ کر" جن فورسز کو پال رہے ہیں وہ ہماری حفاظت کیوں نہیں کرتے"
ایسے مبالغہ آراء افراد سے معلمہ فقط اتنا ہی کہیں گی کہ اگر آپ کو اپنی کمائی کے ضیاع کا اتنا ہی غم ہے تو بہترہے کمانا ہی چھوڑ دیں، کیا فائدہ کٹے ہوئے پیٹ میں غذا ڈالنے کا؟
اور ساتھ ہی، سیاچن کے سرد ترین پہاڑوں پہ نہیں، زلزلے کے متاثرین کے ساتھ بھی نہیں اور پاک افغان سرحد پہ بھی نہیں،فقط ایک رات پاکستان شپ آنر کالج کراچی کے سامنے چورنگی پہ اسلحہ پکڑ کر ساری رات الرٹ کھڑے رہیں، خود پتا چل جائے گا کہ فورسز کے جوان کو تنخواہ آپ کے کٹے ہوئے پیٹ کی ملتی ہے یا انکی ادائیگی فرض کی
اور اگر اتنی بھی ہمت نہیں تواپنی ایک عید سربراہ پاک فوج کی طرح محاذِ جنگ پہ موجود سپاہیوں کے ساتھ منالیں، ساری زندگی عید ہی منانے سے توبہ نہ کرلی تو معلمہ نام نہیں۔۔۔۔۔
ــــــــــــــــــــــــــ
معلمہ ریاضی
صفحہ منتظم، معلمہ کی باتیں، مرچیں لگا دیں
مزید پوسٹ کے لئے سرچ بکس میں MKBMLD لکھیں

0 comments:

Post a Comment