Welcome to Inqilab Patel's Blog

Students' Resource centre, developed to facilitate students in their studies.

O/A Level Computer Studies with Inqilab Patel

A Highly experienced, well educated and self motivated computer teacher.

Ruknuddin Patel's Web portal

In touch with tomorrow

Inqilab Patel's Mag

Inqilab Patel's Magazine is a Students Resource Centre. It is developed to facilitate students of IT, O / A Level and Business Administration in their studies and to make them literate on current Global Political Issues.

RIC: Ruknuddin Institute of Computer

RIC: Ruknuddin Insitute of Computer (Management, IT) is established in April 15, 1995 by Inqilab Ruknuddin Patel. It is organising Skill Development Programmes (SDP) in the fields of Information Technology and Business Administration.

Thursday 25 December 2014

Happy Holidays


Pray for parents


Tuesday 23 December 2014

Are we becoming Catholic


Monday 8 December 2014

The first 5 online resources to use when learning to code

Even if you think the buzz around "learning how to code" is overkill, you have to admit it's here to stay.
Just like it's easier to learn a foreign language if you start in grade school, getting an early grasp on mark-up and programming languages such as HTML, CSS and Java ensures you'll have an idea of what makes our digital lives and devices tick, even if you don't plan on becoming a software developer.
Zach Sims, co-founder and CEO of Codecademy, tells Mashable that learning how to code is reasonably easy for beginners, especially people under 18.
This year, Codecademy set up initiatives in England, Estonia and Argentina to bring coding education to young students — England and Estonia both added coding to their national curricula. As a result, Sims and the team found that "people in high schools can start with actual programming, and more advanced students in middle school can do the same,” he says.
The key, though, is making the learning process interactive. A favorite catchphrase of those who advocate coding education is "learn by doing," and Sims repeats the sentiment. In the past few years, this has led to a surge in educational tools that favor project-driven learning over lectures. The good news is, there aren't any prerequisites.
Start off easy with these five online resources, for kids and adults alike, to help on your way to becoming well-versed in code.

1. Scratch

scratch
"It's never too early to start with something like a Scratch," Sims says.
Scratch is an MIT project that builds a graphical processing language ("Scratch") out of which you can make animated characters on a screen move. While Scratch isn't something you could use to build a website, it does teach algorithmic thinking as well as the the concepts of a computer language, and it can smooth the transition to using HTML and CSS.

2. Code.org

code.org
Code.org's mission is to expand the number of students, especially women and people of color, with access to the learning tools for coding languages. The exercises available on its website are formatted like games with drag-and-drop tiles, but users can view the code they're building during the challenge and when it's completed.
You can even make Elsa from Frozen walk 100 pixels, make a right turn by 90 degrees and walk another 100 pixels, just by typing "moveForward(100); turnRight(90); moveForward(100);" in Javascript.

3. Codecademy

codacademy
As soon as users sign up with Codecademy, they can start learning how to design their own websites with HTML and CSS, and animate their own names with Javascript.
Sims says that Codecademy helps students by allowing them to "write a line of code, and you see what happens immediately," instead of passively watching an instructor. Students also benefit from being asked to build recognizable websites, such as Etsy, with Ruby on Rails.

4. Harvard's CS50

CS50, Harvard University's intro computer science course, enrolls more than 800 in-class students and thousands of online auditors. The syllabus includes general concepts as well as languages, and there are videos and problem sets online that allow students from all over the world to follow along.
While it's not as hands-on as Codecademy, people looking for a more traditional computer science education should check it out.

5. Treehouse Club

treehouse
treehouse2
While Team Treehouse isn't free — it costs $25 for a basic plan and $49 for a pro plan (which gives you access to exclusive workshops and interviews) — it's arguably the most in-depth learning tool for coding and covers a wide variety of topics.
Treehouse also has special tracks, such as web design and iOS development, for users who have specific endpoints in mind for their coding education.



Monday 1 December 2014

Fetch-Execute Cycle

Click here to download notes on Fetch-execute cycle
Work book on von Neumann Architecture and Fetch-execute cycle

Workbook on Logic Gates

Click here to download notes logic gates
Workbook of Logic Gates by Inqilab Patel

Saturday 1 November 2014

کیلے کا چھلکا مت پھینکیں، کمال کی خوبیاں ہیں اس میں



یوں تو کیلے کا چھلکااِدھر اُدھر پھینکنا اخلاقی اور سماجی طور پر انتہائی بُری عادت ہے، لیکن ہمیں امید ہے کہ اس کارآمد
 تحریر کو پڑھنے کے بعد کوئی بھی کیلے کھا کر اس کے چھلکے کو جگہ جگہ پھینکنے کی اپنی عادت تبدیل کرلے گا، کیونکہ اس کے چھلكوں میں حسن و صحت کے حوالے سے کمال کی خوبیاں موجود ہیں۔
چین میں کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق کیلے کے چھلکے میں سیروٹونن ہارمون کی انسانی جسم میں سطح کو برقرار رکھنے کے خصوصیات موجود ہیں۔
واضح رہے کہ یہ ہارمون خوش رہنے کے لیے انتہائی ضروری ہوتا ہے، ایسے لوگ جن میں اس ہارمون کی کمی ہوجاتی ہے، وہ بلاوجہ اُداس، مایوس اور پریشان رہنے لگتے ہیں۔
کیلے کے چھلكوں میں بھرپور غذاییت اور کاربوہائیڈریٹس ہوتے ہیں۔ اس میں وٹامن بی -6، بی -12، میگنیشیم کاربوہائیڈریٹ، اینٹی آکسیڈینٹ، پوٹاشیم اور مینگنیز جیسے بھرپور غذائی مادّے موجود ہوتے ہیں جو غذا کے جزوِبدن بننے کے لیے انتہائی مفید ہیں۔
ماہرین کے مطابق کیلے کے چھلکے کو پيس كر اس کا پیسٹ درد کی جگہ 15 منٹ تک لگائے رکھنے سے سر درد دور ہوسکتا ہے۔ دراصل سر کے درد کا سبب خون کی شریانوں میں پیدا ہونے والا تناؤ ہوتا ہے اور کیلے کے چھلکے میں موجود میگنیشیم شریانوں میں سرائیت کرکے درد کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
کیلے کے چھلکے کو روزانہ دانتوں پر رگڑنے سے ان میں چمک پیدا ہوتی ہے کیونکہ اس میں موجود پوٹاشیم، میگنیشیم اور مینگنیز دانتوں پر جمے پيلے پن کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔ باقاعدگی کے ساتھ یہ عمل کیا جائے تو کچھ دنوں میں دانتوں میں قدرتی چمک آ جاتی ہے۔ دن میں دو بار کیلے کے چھلکے دانتوں پر رگڑنے سے فائدہ ہوتا ہے.
پیروں یا ہاتھوں میں مسّے نکل آئیں تو ان پر کیلے کے چھلکے رگڑنے اور رات بھر ایسے ہی چھوڑ دینے سے دوبارہ اس جگہ پر مسّے نہیں نکلتے۔
چہرے کے مہاسوں پر کیلے چھلکے کو مسل كر پانچ منٹ تک لگانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کیلے کے چھلکے کی جلد میں پانی کی کمی کو بھی پورا کرتے ہیں۔ انڈے کی زردی میں کیلے کے چھلکے کو پيس كر ملا کر چہرے پر لگانے سے جھرّیاں دور ہوتی ہیں۔

یوم عاشوراء کا روزہ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ خود بھی رکھا اوردوسروں کو بھی اس کا حکم دیا تو صحابہ کرام انہیں کہنے لگے یھودی اورعیسائي تو اس دن کی تعظیم کرتے ہیں۔ تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: آئندہ برس ہم ان شاء اللہ نو محرم کا روزہ رکھیں گے، ابن عباس رضي اللہ تعالی کہتے ہیں کہ آئندہ برس آنے سے قبل ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگۓ۔

روى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قال: حِينَ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ قَالَ فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
‘Abdullah ibn ‘Abbas (Allah be pleased with him) said: When the Messenger of Allah (peace and blessings of Allah be upon him) fasted on the day of ‘Ashoora and told the people to fast, they said, “O Messenger of Allah, this is a day that is venerated by the Jews and Christians.” The Messenger of Allah (peace and blessings of Allah be upon him) said: “Next year, if Allah wills, we will fast on the ninth day.” But by the time the following year came, the Messenger of Allah (peace and blessings of Allaah be upon him) had passed away.
[Sahih Muslim: 1916]

Friday 10 October 2014

جنگ جو غزہ کے ڈاکٹروں نے لڑی

اگلے ہفتے قاہرہ میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں اس پر بحث ہوگی کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان حالیہ جنگ کے دوران غزہ میں تباہ ہونے والی عمارتوں کی تعمیر نو کیونکر ممکن ہو سکتی ہے۔ دیگر عمارتوں کی تباہی اپنی جگہ، لیکن پچاس دن تک جاری رہنے والی اس جنگ میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جو تباہی غزہ کے ہسپتالوں کی ہوئی اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔
نہ تو ڈاکٹر نوین کی نظر سے ایسی صورتحال گزری تھی اور نہ ہی ڈاکٹر سائمن کو اس کا کوئی تجربہ تھا۔
جنگ کے دوران عام شہریوں نے جو ویڈیوز بنائی تھیں ان میں غزہ میں افراتفری کے مناظر دیکھے جا سکتے تھے جہاں ڈاکٹر زخمیوں کی بھرمار میں گھرے ہوئے تھے اور بھاری بھرکم کیمرے اٹھائے ہوئے صحافی ہسپتال کے ایک بستر سے دوسرے کی جانب دوڑ رہے تھے۔
بستروں کی کمی کی وجہ سے کئی مریض فرش پر پلاسٹک کی شیٹوں پر پڑے ہوئے تھے اور ان کی خون اور ادویات کی بوتلیں ان کے سروں پر لٹک رہی تھیں۔
ڈاکٹر سائمن کے بقول: ’دنیا بھر میں ایسا کوئی ہسپتال نہیں ہے جو زخمیوں کی ایسی اچانک بھرمار سے نبرد آزما ہو سکے۔ تاہم اگر ان کے پاس وہ سہولیات ہوتیں جیسی ہمارے پاس لندن میں ہیں، تو شاید وہ صورتحال کا مقابلہ کر سکتے۔‘
ڈاکٹر نوین کوالے اور ڈاکٹر سائمن کالورٹ نہایت تجربہ کار سرجن ہیں۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے جب 31 ستمبر کی رات کو شفا ہسپتال کے مناظر دیکھے تو وہ دو سو سے زائد بری طرح زخمی افراد کو دیکھ کر چکرا گئے۔
یہ دونوں سرجن لندن کے کنگز کالج ہسپتال کی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم میں شامل تھے جو ان زخمیوں کی مدد کے لیے غزہ گئے تھے جو جنگ میں اپنے ہاتھ یا پاؤں کھو چکے تھے۔
غزہ تو دور کی بات ہے، اپنے اس دورے سے پہلے یہ دونوں برطانوی سرجن کبھی مشرق وسطیٰ بھی نہیں گئے تھے۔
ڈاکٹر سائمن کنگز کالج ہسپتال کے شعبہ حادثات کے سربراہ ہیں۔ بی بی سی بات کرتے ہوئے ان کہنا تھا کہ اگرچہ وہ غزہ جانے کے معاملے میں تذبذب کا شکار تھے، لیکن انھوں نے سوچا کہ اپنے ڈاکٹر ساتھیوں کی مدد کرنا ان کا فرض ہے۔
بستر نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگوں کو وقت سے پہلے گھر جانے کا کہنا پڑا، لیکن ان میں کچھ ایسے ہیں جو اپنا گھر بھی کھو چکے ہیں
’طبی دنیا کے لوگ ایک عالمی برادری کا حصہ ہوتے ہیں اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ضرورت کے وقت اپنے دیگر ساتھیوں کے کام آئیں۔‘
یاد رہے کہ شفا ہسپتال غزہ کا سب سے بڑا ہسپتال ہے، لیکن اس کی گنجائش بھی محض 583 بستروں پر مشتمل ہے۔
برطانوی سرجنوں کے بقول غزہ کے ہسپتالوں کے شعبہ حادثات میں کام کرنا باقی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ جب بھی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تو یہاں کے ہسپتال زخمیوں سے کھچا کھچ بھر جاتے ہیں اور ہسپتال میں موجود تمام سہولیات اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہوتی ہیں۔
دھماکے میں عبداللہ کی ٹانگ اس بری طرح زخمی ہوئی کہ اسے جسم سے الگ کرنا پڑا
اگرچہ غزہ اور غرب اردن کے علاقے میں 27 ہسپتال موجود ہیں، لیکن ان میں اکثر بہت چھوٹے ہیں اور یہاں چند ہی زخمیوں کی دیکھ بھال ہو سکتی ہے۔ صرف شفا، ناصر ہسپتال اور خان یونس کا یورپیئن غزہ ہسپتال ہی وہ تین ہسپتال ہیں جہاں بڑے حادثات سے نمٹے کی سہولیات موجود ہیں۔

Saturday 27 September 2014

موبائل ڈیوائسز میں آنے والے انقلاب

ڈان اردو


گزشتہ ہفتے ایپل نے اپنے نئے موبائل فونز آئی فون سکس اور آئی فون سکس پلس متعارف کرائے، موجودہ عہد میں دنیا ان ڈیوائسز کی بدولت زیادہ بہتر سیلفیز، زبردست کیمروں، اچھے ریزولوشن اور تیز تر رابطے سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
اس موقع پر اور موبائل ڈیوائسز میں آنے والے انقلاب جس نے پوری دنیا میں کمیونیکشن کا انقلاب برپا کردیا، کے مختلف مراحل کو جاننا کافی دلچسپ ثابت ہوگا خاص طور پر گزشتہ دہائیوں میں موبائل فونز نے کس طرح شکل بدلی وہ کسی کو بھی حیران کرسکتی ہے۔

1917

فوٹو رائٹرز
فوٹو رائٹرز
اس تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ جنگ عظیم اول کے دوران جرمن فوجی ایک مورچے میں موجود ہیں اور بائیں جانب ایک فوجی ایک فیلڈ ٹیلیفون کا استعمال کررہا ہے، یہ جنگ ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے کافی اہم ثابت ہوئی تھی، خاص طور پر فیلڈ ٹیلیفونز اور وائرلیس کمیونیکشن کا استعمال دنیا کی تاریخ میں پہلی بار کیا گیا۔

1941

فوٹو اے پی
فوٹو اے پی
اس ریڈیو پٹرول کار میں دکھایا گیا ہے کہ گاڑیاں کس حد تک ٹرانسمیٹر کالز کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے اور اس میں سگنلز موصول کرنا کتنا آسان ہے، یہ تصویر 27 فروری 1941 کو واشنگٹن میں لی گئی۔

1973

فوٹو اے پی
فوٹو اے پی
دو ہزار تین کی اس تصویر میں آرے کوم کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو مارٹن کوپر ہاتھوں میں موٹرولا ڈائناٹیک موبائل پکڑے ہوئے ہیں، جو اپریل 1973 کو دنیا کے پہلے سیل فون کی شکل میں سامنے آیا تھا جس کے ذریعے کوپر نے تین اپریل کو موبائل فون سے پہلی کال کی تھی۔

1984

فوٹو اے پی
فوٹو اے پی
نیویارک سٹی کے میئر ایڈورڈ کوچ ایک کار فون استعمال کررہے ہیں جو کہ لین سیل فون کارپوریشن نے نصب کیا تھا، یہ تصویر سات اگست 1984 کو نیویارک میں لی گئی۔

1989

فوٹو اے پی
فوٹو اے پی
موٹرولا نے 1989 میں مائیکرو ٹی اے سی پرسنل ٹیلیفون متعارف کرایا، جس کا انٹینا نکالا جاسکتا تھا جبکہ اس کا فلپ نیچے کی جانب کھلتا تھا جسے موبائل فون کے طور پر استعمال کیا گیا۔

1992

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو
اس وقت کے ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار پچیس ستمبر 1992 کو نیویارک ہوٹل میں بوسٹن کے میئر رے فلائن سے ملاقات کے دوران موبائل فون پر بات کررہے ہیں۔

1997

اے ایف پی فوٹو
اے ایف پی فوٹو
فلپس کنزیومر کمیونیکشن نے 1997 میں اپنا نیا ڈیجیٹل اسمارٹ فون دی سائنگری متعارف کرایا، یہ موبائل ای میل، انٹرنیٹ اور وائرلیس فیکس وغیرہ کی سہولت فراہم کرتا تھا۔

1997

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو
بنگلہ دیش میں اپنے گاﺅں کی پہلی موبائل صارف لیلیٰ بیگم ڈھاکہ کا ایک نمبر ملا رہی ہیں۔

2002

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو
ڈینجر ہپ ٹاپ 2002 میں سامنے آیا جو کہ ویب براﺅزن، ای میل، ایس ایم ایس اور موبائل فون سروسز کے فیچر سے لیس تھا، جبکہ اس میں پرسنل اسسٹنس ایپس، ڈیجیٹل کیمرہ اور کچھ ویڈیو گیمز بھی تھیں۔ یہ فون فلپ آﺅٹ اسکرین اور کی بورڈ کے ساتھ تھا جس کی مدد سے لکھنا بہت آسان ہوگیا تھا۔

2007

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو
نو جنوری 2007 کو ایپل کے چیف ایگزیکٹو اسٹیو جابز نے آئی فون سان فرانسسکو کی میک ورلڈ کانفرنس کے دوران متعارف کرایا، جو کہ موبائل فون، جیبی کمپیوٹر اور ملٹی میڈیا پلئیر کی مشترکہ خوبیاں رکھتا تھا، آئی فون نے موبائل فون کی دنیا کو بدل کررکھ دیا۔

2011

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو
ایک برقعہ پوش خاتون تحریر اسکوائر میں نومبر 2011 میں مظاہرین اور فورسز کی جھڑپوں کی تصویر موبائل فون پر کھینچ رہی ہیں۔

2013

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو
تیرہ مارچ 2013 کو لوگ ویٹیکین کی وسطی راہداری پر کھڑے نومنتخب پوپ فرانسس کے پہلے خطاب کی تصاویر لے رہے ہیں۔

2014

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو
نو ستمبر 2014 کو ایپل کا نیا آئی فون سکس اور سکس پلس متعارف کرایا گیا ہے۔

QS world university rankings 2014: top 200

The top 200 universities in the world, as ranked by higher education data specialists QS

Rank 2014Rank 2013InstitutionCountryOverall score
11Massachusetts Institute of Technology (MIT)United States100
2=3University of CambridgeUnited Kingdom99.4
2=4Imperial College LondonUnited Kingdom99.4
42Harvard UniversityUnited States99.3
5=6University of OxfordUnited Kingdom99.2
5=4UCL (University College London)United Kingdom99.2
77Stanford UniversityUnited States98.3
810=California Institute of Technology (Caltech)United States97.1
910=Princeton UniversityUnited States96.6
108Yale UniversityUnited States96.5
119University of ChicagoUnited States95.5
1212ETH Zurich (Swiss Federal Institute of Technology)Switzerland95.3
1313University of PennsylvaniaUnited States94.5
14=14Columbia UniversityUnited States94.1
14=16Johns Hopkins UniversityUnited States94.1
1619=King's College London (KCL)United Kingdom92.9
17=17=University of EdinburghUnited Kingdom92.8
17=19=Ecole Polytechnique Fédérale de LausanneSwitzerland92.8
1915Cornell UniversityUnited States92.6
2017=University of TorontoCanada92.4
2121McGill UniversityCanada91.5
2224National University of Singapore (NUS)Singapore91.1
2322University of MichiganUnited States90.3
2428Ecole normale supérieure, ParisFrance90.2
25=27Australian National UniversityAustralia89.7
25=23Duke UniversityUnited States89.7
2725University of California, Berkeley (UCB)United States89.5
2826University of Hong KongHong Kong88.8
2930University of BristolUnited Kingdom88.5
3033The University of ManchesterUnited Kingdom86.9
31=32The University of TokyoJapan86.7
31=35Seoul National UniversityKorea, South86.7
3331The University of MelbourneAustralia86.5
3429Northwestern UniversityUnited States86
3541=Ecole PolytechniqueFrance85
3635=Kyoto UniversityJapan84.7
37=40University of California, Los Angeles (UCLA)United States84.3
37=38The University of SydneyAustralia84.3
3941=Nanyang Technological University (NTU)Singapore84
4034The Hong Kong University of Science and TechnologyHong Kong83.3
41=44New York University (NYU)United States82.5
41=37University of Wisconsin-MadisonUnited States82.5
43=49University of British ColumbiaCanada82.4
43=43The University of QueenslandAustralia82.4
4545University of CopenhagenDenmark82
4639The Chinese University of Hong KongHong Kong81.9
4748Tsinghua UniversityChina81.3
4852The University of New South WalesAustralia81.2
4950Ruprecht-Karls-Universität HeidelbergGermany81.1
5058University of AmsterdamNetherlands80.5
5160KAIST - Korea Advanced Institute of Science & TechnologyKorea, South79.9
52=65Ludwig-Maximilians-Universität MünchenGermany79.8
52=47Brown UniversityUnited States79.8
5453Technische Universität MünchenGermany79.7
55=55Osaka UniversityJapan79.6
55=51University of GlasgowUnited Kingdom79.6
57=46Peking UniversityChina78.8
57=78University of ZurichSwitzerland78.8
5963University of California, San Diego (UCSD)United States78.6
6067Lund UniversitySweden78.3
6164The University of WarwickUnited Kingdom78.1
6254University of North Carolina, Chapel HillUnited States77.5
6356University of Illinois at Urbana-ChampaignUnited States76.9
6462University of BirminghamUnited Kingdom76.7
65=59University of WashingtonUnited States76.5
65=57Carnegie Mellon UniversityUnited States76.5
6769University of HelsinkiFinland76.4
6866Tokyo Institute of TechnologyJapan76.3
6971=The University of SheffieldUnited Kingdom75.7
7069=Monash UniversityAustralia75.5
71=88Fudan UniversityChina75.3
71=68London School of Economics and Political Science (LSE)United Kingdom75.3
71=75=Tohoku UniversityJapan75.3
71=61Trinity College DublinIreland75.3
7574Leiden UniversityNetherlands75.2
7682National Taiwan University (NTU)Taiwan75.1
7775=The University of NottinghamUnited Kingdom74.9
7879=Boston UniversityUnited States74.8
7971=University of Texas at AustinUnited States74.6
8081Utrecht UniversityNetherlands74.5
8179=Uppsala UniversitySweden74.2
8277KU LeuvenBelgium74.1
8392=Université de MontréalCanada73.6
8496University of AlbertaCanada73.3
8571=University of GenevaSwitzerland73.1
86=95Delft University of TechnologyNetherlands72.9
86=107=Pohang University of Science And Technology (POSTECH)Korea, South72.9
8883University of St AndrewsUnited Kingdom72.7
8984The University of Western AustraliaAustralia72.6
90=97=University of GroningenNetherlands72.1
90=92=Erasmus University RotterdamNetherlands72.1
92=94The University of AucklandNew Zealand72
92=90Durham UniversityUnited Kingdom72
9486=University of SouthamptonUnited Kingdom71.9
9585University of California, DavisUnited States71.7
9691Aarhus UniversityDenmark71.6
9797=University of LeedsUnited Kingdom71.3
98115Queen Mary, University of London (QMUL)United Kingdom71.2
9986=Washington University in St. LouisUnited States70.8
100104=The University of AdelaideAustralia70.5
10189University of OsloNorway70.1
10299=Purdue UniversityUnited States69.5
10399=Nagoya UniversityJapan69.4
104123Shanghai Jiao Tong UniversityChina69.1
105111University of LausanneSwitzerland68.9
106114Yonsei UniversityKorea, South68.4
10799=Georgia Institute of TechnologyUnited States68.3
108104=City University of Hong KongHong Kong68.2
109113Ohio State UniversityUnited States68.1
110118KTH, Royal Institute of TechnologySweden67.9
111106University of PittsburghUnited States67.7
112107=Pennsylvania State UniversityUnited States67.5
113140McMaster UniversityCanada67.4
114120Lomonosov Moscow State UniversityRussia66.9
115112Université Pierre et Marie Curie (UPMC)France66.2
116=145=Korea UniversityKorea, South66
116=110University of BaselSwitzerland66
118121Maastricht UniversityNetherlands65.8
119102=University of MinnesotaUnited States65.7
120124University of YorkUnited Kingdom65.1
121102=Universität FreiburgGermany64.8
122116=University of Maryland, College ParkUnited States64.7
123=136=Cardiff UniversityUnited Kingdom64.5
123=130=University of LiverpoolUnited Kingdom64.5
123=134=Technical University of DenmarkDenmark64.5
126133Kyushu UniversityJapan64.4
127=116=Karlsruhe Institute of Technology (KIT)Germany64.3
127=129Newcastle UniversityUnited Kingdom64.3
129=122University of GhentBelgium64.2
129=136=Rice UniversityUnited States64.2
131125University of Southern CaliforniaUnited States64
132=127Universidade de São Paulo (USP)Brazil63.9
132=130=University of California, Santa Barbara (UCSB)United States63.9
134126Humboldt-Universität zu BerlinGermany63.7
135144Hokkaido UniversityJapan63.4
136119Dartmouth CollegeUnited States63.3
137148University of AberdeenUnited Kingdom62.9
138141=Hebrew University of JerusalemIsrael62.7
139139University College DublinIreland62.6
140162Sungkyunkwan UniversityKorea, South62.2
141=145=University of Cape TownSouth Africa62
141=134=Eberhard Karls Universität TübingenGermany62
141=132University of VirginiaUnited States62
144165Zhejiang UniversityChina61.9
145154University of BernSwitzerland61.8
146128Georg-August-Universität GöttingenGermany61.5
147=147Rheinisch-Westfälische Technische Hochschule AachenGermany61.2
147=174University of Science and Technology of ChinaChina61.2
147=157Eindhoven University of TechnologyNetherlands61.2
150109Freie Universität BerlinGermany61.1
151=167Universiti Malaya (UM)Malaysia61
151=150Wageningen UniversityNetherlands61
153149University of California, IrvineUnited States60.8
154138Université Catholique de Louvain (UCL)Belgium60.7
155151=University of BergenNorway60.3
156=158=University of ViennaAustria60
156=143Radboud University NijmegenNetherlands60
156=141=Emory UniversityUnited States60
159155University of OtagoNew Zealand59.9
160156Lancaster UniversityUnited Kingdom59.7
161168=University of ExeterUnited Kingdom59.6
162=175=Nanjing UniversityChina59.3
162=161The Hong Kong Polytechnic UniversityHong Kong59.3
164151=University of RochesterUnited States59
165153Texas A&M UniversityUnited States58.8
166178University of BarcelonaSpain58.7
167=166Pontificia Universidad Católica de ChileChile58.3
167=199=National Tsing Hua UniversityTaiwan58.3
169180University of WaterlooCanada57.8
170172=Queen's University of BelfastUnited Kingdom57.7
171=181=VU University AmsterdamNetherlands57.6
171=University of CalgaryCanada57.6
173=Universitat Autònoma de BarcelonaSpain57.5
173=168=Université Libre de Bruxelles (ULB)Belgium57.5
175=163=Universidad Nacional Autónoma de México (UNAM)Mexico56.9
175=Chalmers University of TechnologySweden56.9
177163=Rheinische Friedrich-Wilhelms-Universität BonnGermany56.8
178195Universidad Autónoma de MadridSpain56.5
179=158=Ecole Normale Supérieure de LyonFrance56.3
179=187University of BathUnited Kingdom56.3
181172=Vrije Universiteit Brussel (VUB)Belgium56.2
182=188University of BolognaItaly55.8
182=170Stockholm UniversitySweden55.8
182=University of Colorado BoulderUnited States55.8
182=181=Vanderbilt UniversityUnited States55.8
186192University of Illinois, Chicago (UIC)United States55.7
187=189=Queen's University, OntarioCanada55.5
187=196=Aalto UniversityFinland55.5
189175=Case Western Reserve UniversityUnited States55.4
190183=Technion - Israel Institute of TechnologyIsrael55.3
191Western UniversityCanada55.2
192=183=Technische Universität BerlinGermany54.9
192=186Universität HamburgGermany54.9
192=179University of FloridaUnited States54.9
195=171Michigan State UniversityUnited States54.6
195=196=Tel Aviv UniversityIsrael54.6
197193=Keio UniversityJapan54.4
198=Universidad de Buenos AiresArgentina54.3
198=University of TsukubaJapan54.3
200=193=University of SussexUnited Kingdom53.9
200=189=Georgetown UniversityUnited States53.9

Sunday 31 August 2014

پاکستان میں فیس بک کے غلط استعمال کی شرح میں خطرناک اضافہ

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس خصوصاً فیس بک موجودہ عہد میں مفید اطلاعات کے پھیلاﺅ، تفریح اور علم کے حصول کے لیے موثر ذریعہ بن چکی ہے، مگر ہمارے معاشرے میں بیشتر افراد اسے لوگوں کو بدنام کرنے کے لیے بے بنیاد خبروں کو پھیلانے،تصاویر اور خاکوں میں ردوبدل جیسے طریقوں کے ذریعے غلط استعمال کررہے ہیں۔
چند سال قبل جب فیس بک صارفین کی تعداد محدود تھی تو اسے تاریخی، کارآمد اور دلچسپ اطلاعات اور تصاویر کو شیئر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا مگر اب صورتحال مکمل طور پر بدل چکی ہے۔
فیس بک صارفین کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور متعدد افراد کے مختلف ناموں کے ساتھ ایک سے زیادہ اکاﺅنٹس ہیں، یہ فرضی فیس بک اکاﺅنٹس اکثر منفی سرگرمیوں جیسے بلیک میلنگ اور پروپگینڈہ وغیرہ کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ماہرین کے خیال میں بیشتر نوجوانوں کے لیے فرضی ناموں کا استعمال کشش رکھتا ہے جبکہ لڑکیوں کی فرضی تصاویر کے ذریعے انہیں تیز اور بہت زیادہ توجہ ملتی ہے۔
فیس بک ہر ایک کے لیے ہائیڈ پارک بن چکا ہے جہاں کوئی بھی اپنی پسند کی زبان استعمال کرسکتا ہے، کئی بار کوئی صارف معروف شخصیات جن میں زیادہ تر سیاستدان ہوتے ہیں، کے بارے میں نامناسب الفاظ استعمال کرتا ہے، یہاں تصاویر اپ لوڈ کرنے، تحریر اور کمنٹس پوسٹ کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔
سیاسی ورکرز فیس بک پر بہت زیادہ متحرک نظر آتے ہیں جو اس سائٹ کو عام طور پر پروپگینڈہ کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس صورتحال کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ لوگوں کی جانب سے سیاسی اور مذہبی رہنماﺅں کی بے عزتی کے لیے مضحکہ خیز فرضی تصاویر کو اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔
ان رہنماﺅں کی تصاویر کو لڑکیوں کے ساتھ مختلف پوز میں ایڈٹ کیا جاتا ہے اور پھر ان کی شخصیت پر دھبہ لگانے کے لیے انہیں عوام کے لیے اپ لوڈ کردیا جاتا ہے۔
سیاسی ورکرز خاص طور پر خواتین کی تصاویر کو فوٹو شاپ میں جسمانی ساخت کو تبدیل کرکے عجیب کیپشنز کے ساتھ پوسٹ کی جاتی ہیں، فیس بک کے بیشتر صارفین اب اس پورے عمل سے کافی واقف ہوچکے ہیں اور وہ جاننے لگے ہین کہ لوگ اس سائٹ کو پروپگینڈہ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔
فیس بک کے صارفین تعلیم یافتہ افراد ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں، مگر وہ منفی سرگرمیوں میں بہت زیادہ مصروف رہتے ہیں اور نہ صرف اس طاقتور پلیٹ فارم کا غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ معاشرے میں بھی کوئی اچھائی نہیں پھیلا رہے۔
طاقتور سوشل میڈیا کا غلط استعمال انتشار کا سبب بنتا ہے کیونکہ فرضی اکاﺅنٹس کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔
متعدد معروف شخصیات، حکومتی عہدیداران، سیاستدان اور یہاں تک کہ ججز نے فیس بک اکاﺅنٹس ہونے کی تردید کی ہے مگر ان کے نام کی آئی ڈیز سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ پر موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ قابل اعتراض مواد سامنے آنے کے بعد بیشتر شخصیات کو اپنی صفائی پیش کرنا پڑ جاتی ہے۔
دیگر افراد کی ٹائم لائن پر تصاویر ٹیگ کرنا ایک اور سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ کئی بار کوئی صارف قابل نفرت فوٹوز اور مواد دیگر شخص کی مرضی کے بغیر ٹیگ کردیتا ہے۔
غیرمصدقہ اور غیر مستند قرآنی آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شیئر کرنا بہت عام ہے اور لوگ انہیں ڈاﺅن لوڈ کرکے ان کے پرنٹ نکال کر استعمال بھی کرتے ہیں مگر کوئی بھی اس چیز کی زحمت نہیں کرتا ہے کہ اس کی تصدیق کسی مذہبی عالم سے کرالے۔
ایک سرکاری کالج کی طالبہ ماہ نور علی کا کہنا ہے" مجھے نہ صرف فیس بک بلکہ اخبارات اور ٹیلیویژن پر تشدد سے متاثرہ افراد کی خونریز تصاویر دیکھنے سے نفرت ہے،میڈیا کو اس طرح کے مواد کو دکھانے پر پابندی لگادینی چاہئے، جو معاشرے کو دہشت زدہ کردیتا ہے"۔
اسی طرح اسلامیہ کالج پشاور کے طالبعلم محمد اظہار علی شاہ بھی کہتے ہیں لڑکوں کی جانب سے لڑکیوں کی فرضی تصاویر کا استعمال عام معمول بن چکا ہے، جو کسی مہذب اور باشعور شخص کو زیب نہیں دیتا۔
اس کا اصرار ہے کہ طالبعلموں کو اس قابل قدر پلیٹ فارم کو مذموم مقاصد کی بجائے ایسی عام معلومات، تدریسی اور تاریخی مواد کو شیئر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہئے۔
محمد اظہار نے سوشل میڈیا پر غیراخلاقی مواد کو ٹیگ کرنے کے عمل کی بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بیشتر فیس بک صارفین نوجوان طالبعلم ہیں، جنھیں اسے لوگوں کو بہکانے کے لےے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔
اس کا کہنا تھا"ہر صارف کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سوشل میڈیا کو خاندان بھی استعمال کرتے ہیں اور غیرمعیاری مواد کو اپ لوڈ کرنا غیراخلاقی کام ہے، جس پر حکومت کے متعلقہ اداروں کو نظر رکھنی چاہئے۔
ایک آئی ٹی ماہر نے بتایا کہ بے کار مواد کے استعمال پر پابندی لگائی جانی چاہئے جو عام صارف کو بہکانے کا سبب بنتا ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل کیمرہ اور موبائل فونز کے بہت زیادہ استعمال نے لوگوں کی زندگیوں کو غیرضروری ویڈیوز اور تصاویر کی بدولت قابل رحم بنادیا ہے۔
اس نے کہا"کسی کو بھی عام صورتحال میں دیگر افراد کی پرائیویسی میں مداخلت نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ کسی شخص کی زندگی کے کسی غیرمعمولی لمحے کی تصویر کو سوشل میڈیا تک پہنچنے میں کوئی وقت نہیں لگتا"۔
اس ماہر کا مزید کہنا تھا کہ فیس بک کے بیشتر صارفین کے انٹرنیٹ پر بہت زیادہ دوست ہوتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی ضرورت کے وقت کام نہیں آتا" وہ صرف سالگراﺅںپر پیغامات بھیجتے ہیں اور نئے مواد اپ لوڈ کرنے پر کمنٹس ہی کرتے ہیں"۔
آئی ٹی ماہر کے مطابق نوجوانوں نے اپنی زندگیاں فیس بک اور ٹوئیٹر کے لیے صرف کردی ہیں اور رات کو سونے کی بجائے اس طرح کی سرگرمیوں میں ہی مصروف رہتے ہیں۔
اس نے کہا کہ طالبعلموں کے اندر کلاس رومز میں ویڈیو بنانے اور اسے اپ لوڈ کرنے کی عادت والدین اور اساتذہ کے لیے حیرت کا باعث بنتی ہے، ہر تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کو موبائل فونز اور ڈیجیٹیل کیمروں کے غلط استعمال پر نظر رکھنی چاہئے۔
ماہر کا کہنا تھا کہ فرضی آئی ڈی بنانے والے صارفین کے مقامات کو ڈھونڈا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سائبر کرائمز یونٹس کو بھرپور کوشش کرنا ہوگی۔ اس نے آئی ڈیز کی حقیقت پر نظر رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے جس پر نظر نہ رکھی جائے تو یہ لوگوں کے قتل کا باعث بھی سکتا ہے۔
آئی ٹی ماہر کے مطابق" یہاں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ سماج دشمن عناصر سوشل میڈیا کو اپنے قابل نفرت مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہ لڑکیوں کو چیٹ کے ذریعے ورغلاتے ہیں، ان کے فون نمبرز لے کر اپنے ذہن میں موجود بیمار ذہنیت کے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں"۔
ایک اسپورٹس صحافی عظمت اللہ خان نے اس بارے میں رائے دیتے ہوئے کہا کہ فیس بک علم کے خزانے کی طرح ہے مگر نوجوانوں کی جانب سے اس کا صحیح استعمال نہیں کیا جارہا۔ انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور انہیں سیکھائے کہ کس طرح سوشل میڈیا کو علم کے حصول کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ایک اور صحافی انیلہ شاہین نے فیس بک کو ہر ایک تک اطلاعات کی رسائی کے لیے مفید ذریعے قرار دیا، جہاں ہر اس فرد کو اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کا موقع ملتا ہے جو ٹیلیویژن اور اخبارات میں ایسا نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مفت اور موثر پلیٹ فارم ہے" پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی جانب سے توہین آمیز اور بدنام کرنے والے بیانات کو جگہ نہیں ملتی مگر فیس بک پر ہر کوئی اپنے جذبات کے اظہار کے لیے آسانی سے سخت الفاظ کو پوسٹ کردیتا ہے"۔
انیلہ شاہین نے کہا کہ کئی بار تعلیم یافتہ افراد بھی فیس بک کو انتہائی غیرمعیاری وماد کو شیئر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، انہوں نے تجویز دی کہ قابل اعتراض مواد کو اپ لوڈ کرنے پر کچھ پابندیاں عائد ہونی چاہئے کیونکہ اس سے معاشرے میں معاشرتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
ایک اور آئی ماہر سگتین علی کا کہنا تھا" میں سوشل میڈیا کا استعمال اکثر گیمز کھیلنے کے لیے کرتا ہوں"۔
اس نے بتایا کہ جو لوگ اس سائٹ کے استعمال کو روزانہ کی بنیاد پراس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے انہیں اس پر کام کرنے کی ہدایت دی گئی ہو اور وہ پیسے دیئے جارہے ہوں۔
ایف آئی اے کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر عمران شاہد نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کہ سائبر کرائمز یونٹ اس طرح کے پلیٹ فارمز کے استعمال پر نظر رکھنے کے لیے کام کررہا ہے اور عوامی شکایات پر اقدام بھی کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا"ایف آئی اے کے سائبر کرائم یونٹ کے حوالے سے بیشتر افراد کو زیادہ معلومات حاصل نہیں، جو کہ انٹرنیٹ اور فیس بک پر موثر طریقے سے غیرمطلوب اور تضحیک آمیز مواد کی روک تھام کے لیے کام کررہا ہے، یہ یونٹ کسی بھی آئی ڈی کے حامل فرد کو تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے"۔
عمران شاہد نے بتایا کہ شعور نہ ہونے کے باعث لوگ اپنی شکایات پولیس کے پاس درج کراتے ہیں مگر یہ پولیس کی ذمہ داری نہیں، کیونکہ صرف ایف آئی اے کے پاس ہی غیرضروری مواد پر نظراور بلاک کرنے کی سہولت موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی سمیت متعلقہ اداروں یہاں تک کہ یاہو اور گوگل تک سے بھی مدد لی جاتی ہے