Welcome to Inqilab Patel's Blog

Students' Resource centre, developed to facilitate students in their studies.

O/A Level Computer Studies with Inqilab Patel

A Highly experienced, well educated and self motivated computer teacher.

Ruknuddin Patel's Web portal

In touch with tomorrow

Inqilab Patel's Mag

Inqilab Patel's Magazine is a Students Resource Centre. It is developed to facilitate students of IT, O / A Level and Business Administration in their studies and to make them literate on current Global Political Issues.

RIC: Ruknuddin Institute of Computer

RIC: Ruknuddin Insitute of Computer (Management, IT) is established in April 15, 1995 by Inqilab Ruknuddin Patel. It is organising Skill Development Programmes (SDP) in the fields of Information Technology and Business Administration.

Thursday 26 November 2015

ذہنی طور پر مضبوط بنانے والی 16 عام عادات


ذہنی طور پر مضبوط ہونا اتنا بھی آسان نہیں جتنا آپ تصور کرتے ہیں بلکہ اس کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔
روزانہ کی مشق کرکے ہی آپ خود کو ذہنی طور پر مضبوط اور اپنے اندر حقیقت پسندانہ امید کو پیدا کرسکتے ہیں۔
ذہنی طور پر مضبوط افراد ایسے کام نہیں کرتے جس سے انہیں وقت ضائع کرنے کا احساس ہو یا دیگر افراد کے سامنے اپنی طاقت کو سرنگوں کردیں۔
تو ایسی ہی چند عادات کے بارے میں جانے جو ذہنی طور پر مضبوط شخصیت کے حامل افراد اپنا لیتے ہیں۔

جذبات اور منطق کے درمیان توازن

کریٹیو کامنز فوٹو 
کریٹیو کامنز فوٹو
 
ذہنی طور پر مضبوط افراد اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان کے جذبات ان کی سوچ پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ مگر بہترین فیصلے کرنے کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہین کہ منطق اور جذبات کے درمیان ایک توازن برقرار رہے۔

تعمیری رویے کو اپنانا

  کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
جواز پیش کرنا یا بہانے بازی سے لے کر دیگر افراد سے شکایات تو ہر فرد کی ہوتی ہیں مگر ذہنی طور پر مضبوط لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنا وقت غیر تعمیری سرگرمیوں میں ضائع کرنا کسی صورت پسند نہیں کرتے۔

تبدیلی کو اپنانے کی صلاحیت پر اعتماد

  کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
ذہنی طور پر مضبوط افراد جانتے ہیں کہ حالات میں تبدیلی اطمینان بخش نہیں ہوتی مگر وہ اپنی توجہ اور توانائی اس کی مزاحمت کرنے کی بجائے اپنانے پر صرف کرتے ہیں۔

خوف کا سامنا کرنا

  کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
اگرچہ ذہنی طور پر مضبوط افراد کو ڈر پر فتح حاصل کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ انہیں دوسروں پر کچھ ثابت نہیں کرنا ہوتا، مگر وہ اس خوف کا سامنا کرنے سے گھبراتے نہیں جو ان کی راہ میں آتا ہے۔

غلطیوں سے سبق سیکھنا

کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
ایسے افراد اپنی غلطیوں کو چھپاتے یا اس پر جواز نہیں تراشتے، بلکہ وہ اس سے سیکھتے ہیں تاکہ آئندہ ایسا نہ ہوسکے۔

دوسروں کی کامیابی پر خوش ہونا

  کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
ذہنی طور پر مضبوط افراد اپنے ارگرد موجود لوگوں سے مسابقت کی بجائے تعاون پر یقین رکھتے ہیں ۔ وہ دیگر افراد کی کامیابیوں پر حسد یا کوئی منفی جذبہ محسوس نہیں کرتے بلکہ وہ پورے دل سے اسے سراہتے ہیں۔

اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے پر توجہ

  کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
ایسے لوگ اپنی صلاحیتوں کو منوانے کے حوالے سے فکر مند نہیں ہوتے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہرممکن حد تک خود میں بہتری لاتے رہے۔

زندگی کی مشکلات کو مواقع سمجھنا

کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
اکثر زندگی کی مشکلات کچھ افراد کو تلخ اور مایوس بنادیتی ہیں مگر ذہنی طور پر مضبوط فرد ایسے حالات کو درحقیقت آگے بڑھنے کے مواقع تصور کرتے ہیں جو ان کی شخصیت میں مزید نکھار لاسکتے ہیں۔

ہر حال میں خوش رہنے والے

  کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
ذہنی طور پر مضبوط افراد اپنے حال میں مگن رہتے ہیں چاہے انہیں کامیابی ملے یا ناکامی کا سامنا کرنا پڑے۔

تحمل مزاجی

  کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
ایسے افراد اپنے مقاصد کو کسی مختصر ریس کی بجائے میراتھون کی نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ اس کے لیے کچھ عرصہ تکلیف بھی اٹھانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں تاکہ طویل المعیاد بنیادوں پر کامیابی مل سکے۔

ناکامیوں سے واپس ابھرنا

  کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
ذہنی طور پر مضبوط لوگ ناکامی کو سفر کا اختتام نہیں سمجھتے بلکہ وہ اپنی ناکام کوششوں کو علم حاصل کرنے کے مواقعے کے طور پر لیتے ہیں جس سے مستقبل میں ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

حقیقت پسندانہ سوچ

  کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
ایسے افراد تاریکی میں بھی روشنی کی کرن دیکھ لیتے ہیں اور روشن پہلوﺅں کے بارے میں سوچتے ہیں، مگر وہ اپنی پرامیدی کو زندگی کے حقائق سے ہٹنے کی اجازت نہیں دیتے۔

اپنے فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں

  کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
ذہنی طور پر مضبوط افراد بلاضرورت خود ترسی یا خود کو برا بھلا نہیں کہتے بلکہ اپنے اقدامات کی مکمل ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔

شکرگزاری کا اظہار

  کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
ہر وقت مزید کی طلب کرنے کی بجائے ایسے افراد اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ ہے اور اس کے لیے وہ اوپر والے کے شکر گزار ہیں۔

مسائل حل کرنے کی کوشش

  کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
ذہنی طور پر مضبوط افراد مسائل کی لہر میں ڈوبنے کی بجائے اس کا حل تلاش کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔

کمزوریوں کو بہتر بنانا

  کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو
بیشتر افراد اپنی خامیوں و کمزوریوں کو چھپانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں مگر ذہنی طور پر مضبوط شخصیت اپنی توانائی انہیں چھپانے پر ضائع کرنے کی بجائے ان کو دور کرنے پر صرف کرتی
 

Thursday 19 November 2015

بینائی کو تحفظ دینے والے 14 بہترین طریقے

آج کل نظر کی کمزوری ایک عام مسئلہ بن چکی ہے اور کم عمری سے ہی چشمہ لگ جاتا ہے ۔
تاہم اگر آپ کوشش کریں تو اپنی آنکھوں کو قبل از وقت یا عمر کے ساتھ آنے والی کمزوری سے تحفظ دے سکتے ہیں اور چشمے لگانے سے بچ سکتے ہیں۔
یہاں کچھ ایسے ہی نکات دیئے گئے ہیں جو آپ کی آنکھوں کو صحت مند اور بینائی کو مضبوط رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

ہفتہ میں دو بار مچھلی کا استعمال

کریٹیو کامنز فوٹو 
کریٹیو کامنز فوٹو
 
مچھلی اومیگا تھری فیٹی ایسڈز سے بھرپور ہوتی ہے جو آنکھوں کو ڈرائی آئی نامی مرض کے خطرے سے بچانے میں مددگار جز ثابت ہوتا ہے۔ اگر آپ کو مچھلی نہیں پسند تو مچھلی کے تیل کے سپلیمنٹس کا بھی استعمال ڈاکٹر کے مشورے سے کرکے یہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

ہمشہ گوگلز کا استعمال کریں

کریٹیو کامنز فوٹو 
کریٹیو کامنز فوٹو
جب بھی تیراکی یا لکڑی کا کوئی کام کریں تو گوگلز کو ضرور آنکھوں پر چڑھائے۔ تیراکی کے لیے آنکھوں کے گوگلز آپ کی آنکھوں کو کلورین سے بچاتا ہے جبکہ لکڑی کے کام کے دوران یہ ذرات کو آنکھوں میں جانے نہیں دیتا جو قرنیے میں خراش کا باعث بن سکتے ہیں۔

خشک ہوا سے گریز

کریٹیو کامنز فوٹو 
کریٹیو کامنز فوٹو
گاڑی میں اے سی کی ہوا کا رخ آنکھوں کی بجائے پیروں کی جانب رکھنے کی عادت ڈالیں۔ خشک ائیر کنڈیشنڈ ہوا کسی اسفنج کی طرح آنکھوں سے نمی کو چوس لیتی ہے، تو کوشش کریں کہ گاڑی کے اے سی سے خارج ہونے والی ہوا کا رخ آپ کے چہرے کی جانب نہ ہو۔ آنکھوں میں بہت زیادہ خشکی قرنیے میں خراشوں اور اندھے پن تک کا باعث سکتی ہے۔

سرخ پیاز کا انتخاب

کریٹیو کامنز فوٹو 
کریٹیو کامنز فوٹو
کھانے کے لیے سرخ پیاز کا استعمال کریں۔ دیگر اقسام کے مقابلے میں اس پیاز میں ہلوطین نامی ایک اینٹی آکسائیڈنٹ زیادہ مقدار میں ہوتا ہے جو آنکھوں کو موتیے جیسے مرض سے تحفظ دیتا ہے۔

تحفظ کو اپنائیں

کریٹیو کامنز فوٹو 
کریٹیو کامنز فوٹو
جب بھی گھر سے نکلیں تو سن گلاسز کو پہن لیں۔ اس سے نہ صرف سورج سے خارج ہونے والی سخت شعاعوں کو بلاک کرنے میں مدد ملے گی بلکہ آنکھوں کو ہوا چلنے سے خشک ہونے کے اثرات سے بھی تحفظ ملے گا۔

شکرقندی کا استعمال

کریٹیو کامنز فوٹو 
کریٹیو کامنز فوٹو
وٹامن اے سے بھرپور شکرقندی کو اس کے سیزن میں اکثر استعمال کریں۔ یہ رات کی نظر کو بہتر کرنے کے لیے بہترین چیز ہے اور بینائی کو دھندلانے سے بچانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔

صاف رکھیں

کریٹیو کامنز فوٹو 
کریٹیو کامنز فوٹو
خواتین رات کو آنکھوں سے میک اپ کو لازمی ہٹائیں جبکہ لینس لگانے والے مرد و خواتین بھی اسے رات کو نکال کر سونے کی عادت بنائیں۔ میک اپ کے چھوٹے ٹکڑے آنکھ میں جانے سے قرنیے میں خارش یا تکلیف کا باعث بن سکتے ہیں، جبکہ لینس کو لگا کر سونے سے مختلف امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

تولیہ الگ کرنا

کریٹیو کامنز فوٹو 
کریٹیو کامنز فوٹو
ہر بار اپنے چہرے کو صاف کرنے کے لیے نیا یا کم از کم اپنا تولیہ استعمال کریں۔ تولیے کا مشترکہ استعمال آنکھوں کے انفیکشن آشوب چشم کا خطرہ بڑھ جاتا ہے بلکہ اگر کوئی اس کا شکار ہو تو یقینی ہوجاتا ہے۔

ہفتے میں دو بار پالک کا استعمال

کریٹیو کامنز فوٹو 
کریٹیو کامنز فوٹو
پالک کو مختلف طریقوں سے بناکر کھایا جاسکتا ہے اور یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ اس کا استعمال معمول بنالینے کو یقینی بنائیں۔ مختلف طبی تحقیقی رپورٹس کے مطابق پالک میں موجود لیوٹین ایسا جز ہے جو عمر بڑھنے کے ساتھ آنکھوں کے پٹھوں میں آنے والی تنزلی اور موتیے کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

وقفہ لیں

کریٹیو کامنز فوٹو 
کریٹیو کامنز فوٹو
جب آپ کمپیوٹر پر کام یا کتاب کا مطالعہ کررہے ہو تو ہر آدھے گھنٹے بعد کا الارم لگالیں۔ اس کو یاد دہانی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے کام یا کتاب سے نظریں ہٹا کر کسی دور واقع جگہ کو تیس سیکنڈ تک دیکھیں۔ اس طریقے سے آپ کو آنکھوں کی تھکاوٹ اور اس پر پڑنے والے بوجھ کی روک تھام میں مدد ملے گی۔

بلڈ پریشر پر نظر رکھیں

کریٹیو کامنز فوٹو 
کریٹیو کامنز فوٹو
اپنے بلڈ پریشر کا معائنہ ہر ماہ کریں۔ اگر آپ چاہے تو بازاروں میں عام ملنے والے مانیٹر سے یہ کام گھر پر کرسکتے ہیں۔ اگر ہائی بلڈ پریشر کے بارے میں علم نہ ہوسکے تو اس سے آنکھوں کی رگوں کو نقصان پہنچنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

سر پر ہیٹ کا استعمال


کریٹیو کامنز فوٹو 












کریٹیو کامنز فوٹو
 سن گلاسز کے ساتھ ایک بڑے ہیٹ یا ٹوپی کو بھی پہننے کی عادت ڈالیں۔ ہیٹ یا ٹوپی سورج کی نقصان دہ الٹر وائلٹ شعاعوں 50 فیصد اثرات سے تحفظ دیتا ہے اور آنکھوں میں چشمے کے اوپر یا نیچے سے ان شعاعوں کے پہنچنے کا امکان کم ترین ہوجاتا ہے۔

دماغ کو تحریک دینا

کریٹیو کامنز فوٹو 
کریٹیو کامنز فوٹو
چینبلی یا پودینے کے تیل کو اپنے ہاتھ پر مل کر سونگھے۔ طبی محققین کا کہنا ہے کہ چینبلی کا تیل دماغ کے اندر ان لہروں کو بڑھاتا ہے جو ہوشیاری اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کو بہتر بناتی ہیں۔ یہ خوشبوئیں دماغ کے پیچیدہ نظام کو تحریک دیتی ہیں اور آنکھوں تک اس کے اثرات جاتے ہیں جس کی مدد سے آپ مدھم روشنی میں زیادہ آسانی سے دیکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔

چہل قدمی

کریٹیو کامنز فوٹو 
کریٹیو کامنز فوٹو
ہفتے میں کم از کم چار بار چہل قدمی کو عادت بنالیں۔ مختلف طبی شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ ورزش کو معمول بنالینے سے موتیے کے شکار افراد میں گوشہ چشم کے اندر دباﺅ کو کم رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ موتیے کے مریض اگر ہفتے میں چار بار 40 منٹ تک تیز چہل قدمی کریں تو آنکھوں کے اندر دباﺅ میں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے جس سے مرض کے لیے ادویات کے استعمال کی بھی زیادہ ضرورت نہیں رہے گی۔

نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔
http://www.dawnnews.tv/news/1029528/

ایس ایم ایس کے ذریعے موبائل فون محفوظ بنائیں


— اے ایف پی فائل فوٹوانڈرائیڈ اسمارٹ فونز کا مقبول ترین آپریٹنگ سسٹم ہے جو اپنے صارفین کو مختلف قسم کے فیچرز آزادی کے ساتھ فراہم کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں مختلف قسم کی ایپس بنائی جاتی ہیں جو اس آپریٹنگ سسٹم کو مزید شاندار بنادیتی ہیں۔
اس آرٹیکل میں ہم آپ کو ایک ایسی ایپ کے بارے میں بتارہے ہیں جس کے ذریعے آپ کہیں سے بھی صرف ایک ایس ایم ایس کے ذریعے اپنے انڈرائیڈ اسمارٹ فون یا ٹیبلٹ کو شٹ ڈاؤن کرسکتے ہیں۔
اگر آپ اپنا موبائل کہیں بھول گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی آپ کی پرائیوسی میں دخل اندازی نہ کرے تو یہ ایپ آپ کے کام آسکتی ہے۔
اس کے علاوہ بھی آپ اس ایپ کا متعدد انداز میں استعمال کرسکتے ہیں۔
ان آسان نکات پر عمل کرکے آپ باآسانی اس ایپ کی خوبیوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ ایپ صرف روٹڈ ڈیوائزز پر کام کرتی ہے۔
اس کے بعد ریموٹ پاور آف (Remote Power Off) نامی ایپ اپنے کمپیوٹر میں ڈاؤن لوڈ کریں، اسے ایکسٹریکٹ کرلیں اور Remoteturnoff.apk نامی فائل اپنی انڈرائیڈ ڈیوائس میں منتقل کرلیں۔
اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ نے نامعلوم ذرائع (Unknown sources) سے ایپ انسٹال کرنے کا فیچر اپنی ڈیوائس میں کھول رکھا ہے۔
اگر نہیں تو Settings>Security>Unknown sources کو فالو کرکے آپ اسے کھول سکتے ہیں۔
اس کے بعد جہاں آپ نے یہ فائل منتقل کی ہے وہاں جاکر اسے ٹیپ کرکے اسے انسٹال کرلیں۔
اس کے بعد اپنا پاسورڈ تجویز کریں اور پھر اس کی تصدیق کردیں اور پھر 'چینج سیکرٹ کوڈ' (Change secret code) پر ٹیپ کریں۔
اس کے بعد اس ایپ کو اپنے پیغامات حاصل کرنے کی اجازت دے دیں۔

اور ہوگیا! اب آپ کہیں بھی صرف ایک ایس ایم ایس کے ذریعے اپنی ڈیوائس کو شٹ ڈاؤن کرسکتے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے آپ کو انٹرنیٹ کی بھی ضرورت نہیں۔

Wednesday 4 November 2015

O & A Level Computer Science with Inqilab Patel


Monday 2 November 2015

ساحر لدھیانوی: تلخیاں سمیٹتا شاعر


میں پل دو پل کا شاعر ہوں
پل دو پل مری کہانی ہے
پل دو پل میری ہستی ہے
پل دو پل مری جوانی ہے
مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے
اور آ کر چلے گئے
کچھ آہیں بھر کر لوٹ گئے
کچھ نغمے گا کر چلے گئے
وہ بھی اک پل کا قصہ تھے
میں بھی اک پل کا قصہ ہوں
کل تم سے جدا ہو جاؤں گا
گو آج تمہارا حصہ ہوں
کل اور آئیں گے نغموں کی
کھلتی کلیاں چننے والے
مجھ سے بہتر کہنے والے
تم سے بہتر سننے والے
کل کوئی مجھ کو یاد کرے
کیوں کوئی مجھ کو یاد کرے
مصروف زمانہ میرے لیے
کیوں وقت اپنا برباد کرے
ساحر لدھیانوی پر کبھی نوجوانوں کا شاعر تو کبھی فلمی شاعر جیسے لیبل لگا کر ان کی ادبی صلاحیتیوں سے انکار کی کوشش کی گئی مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ ساحر پل دو پل کے شاعر نہیں تھے اور انہوں نے جو کچھ کہا وہ کارِ زیاں نہیں تھا۔
ساحر لدھیانوی کا حقیقی نام عبدالحئی تھا۔ انہوں نے بچپن اور نوجوانی میں بہت ہی سختیاں جھیلی تھیں۔ 1937ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخل ہوئے مگر اپنی بے توجیہی کے سبب وہاں سے نکالے گئے۔ پھر دیال سنگھ کالج کا رخ کیا جہاں ایک معاشقے کے سبب انہیں کالج سے خارج کر دیا گیا۔ پھر انہوں نے شاعری کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی ان کا شعری مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ شائع ہو چکا تھا جس نے اشاعت کے بعد دھوم مچا دی تھی۔
ساحر لدھیانوی کا گھرانہ علمی و ادبی نہ تھا۔ نہ اسے شاعری ورثے میں ملی، نہ ان کی آنکھ کسی خوبصورت پاکیزہ ماحول میں کھلی۔ ماحول نے ان کو بے اطمینانی اور بے کیفی دی۔ وہ اس ماحول میں خود کو اجنبی محسوس کرنے لگے۔ معاشرے کا زہر ان کی رگ و پے میں سرایت کر گیا اور پھر انہوں نے اس زہر کا تریاق شاعری میں ڈھونڈا۔ اپنے نفرت کے جذبے کو تسکین دینے اور معاشرے کو اس کا کوڑھ زدہ چہرہ دکھانے کے لیے انہوں نے شاعری کا سہارا لیا جو ان کو قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی تھی۔
` `
ساحر مبلغ تھے نہ مصلحت پسند، مگر ان کے اندر اپنے ماحول کے خلاف بغاوت کا جذبہ موجود تھا۔ ان کی نظم ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں ان کے جذبات کی عکاس اور ان کے ماحول کے تجزیے کی بہترین نظم ہے
یہ اٹھتی نگاہیں حسینوں کی جانب
لپکتے ہوئے پاؤں زینوں کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب
ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیغمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں
بلاؤ خدایانِ دین کو بلاؤ
یہ کوچے یہ گلیاں یہ منظر دکھاؤ
ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کو لاؤ
ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں
ساحر کا سفر تب شروع ہوا تھا جب ان کے جاگیردار باپ نے تین چار برس کی عمر میں انہیں والدہ کے ہمراہ گھر سے نکال دیا تھا۔ ان کا باپ ایک روایتی زمیندار تھا جو اپنی زمینیں بیچ بیچ کر شادیاں کرتا تھا۔ ساحر کی زندگی کا یہ سفر لدھیانہ میں ریلوے لائن کنارے ایک چوبارے سے شروع ہوا اور بمبئی میں ساحل سمندر کے کنارے ایک فلیٹ میں ختم ہو گیا۔ بیچ کی ساری زندگی ساحر دنیا کی بھیڑ میں محبت و یقین کی پناہیں تلاشتے رہے۔
ان کے کئی معاشقے زبان زدِ عام ہوئے۔ لدھیانہ گورنمنٹ کالج سے انہیں نکالا گیا۔ اس واقعے نے ان کے اندر جو زخم لگایا وہ شاعری کی صورت پھوٹ بہا۔ مجبوریوں اور مشکلوں کے اس دور میں ساحر نے کبھی اپنی ذاتی مشکلات دور کرنے یا زندگی بنانے پر توجو نہیں دی۔ البتہ ان کی ایک آرزو کسی سے مخفی نہیں تھی۔ فلمی گیت لکھنے اور اس میدان میں جھنڈے گاڑنے کی آرزو، اور آخر کار وہ اس میں کامیاب رہے۔ فلموں کے لیے ایسے لازوال گیت لکھے کہ جو کئی دہائیوں بعد آج بھی تر و تازہ محسوس ہوتے ہیں۔
ساحر کا پہلا مجموعہ "تلخیاں" جذباتی، رومانوی اور انقلابی شاعری کا دلچسپ امتزاج تھا۔ اس کا مقدمہ احمد ندیم قاسمی نے لکھا۔ اس مجموعے کی ایک نظم 'تاج محل' مغل بادشاہ کی تعمیر کا مذاق تھا۔ اس نظم نے ساحر کو ہندوستان میں شہرت بخشی
ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
ساحر کی رنگ پر آئی ہوئی شاعری تین دہائیوں پر پھیلی ہے۔ ساحر کے ہاں شور و پکار نہیں احتجاج ہے۔ شان و شکوہ نہیں ڈرامائی تناؤ ہے۔ طمطراق نہیں بلکہ ہر ایک منظر اپنی اذیت یا مسرت کا اظہار ہے۔ مصرعے ان کے ہاں اکھڑے ہوئے ملتے ہیں
"یہ سب کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے کچھ سوچنے دے"
"ٹکٹکی باندھ کے تکتا ہوا استادہ ہے"
"اس لیے اے شریف انسانو"
"کیوں کہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے"
یہ مصرے نثر کے ایسے جملے محسوس ہوتے ہیں جن پر فنکار نے شاعرانہ رندا نہیں پھیرا۔ جیسے زبان پر آ گئے ویسے ہی رکھ دیے۔ انہوں نے نظمیں لکھیں، گیت لکھے، مگر غزلیں بہت کم، لیکن ایک غزل تو ان کی ایسی ہے کہ اس فن کا جوہر شناس حیرت زدہ رہ جائے۔ یہ پورم پوری غزل ہے، زبان کا لطف دیتی ہے
جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی
ازسرِ نو داستانِ شوق دہرائی گئی
بک گئے جب تیرے لب پھر تجھ کو کیا شکوہ اگر
زندگانی بادہ و ساغر سے بہلائی گئی
اے غمِ دنیا! تجھے کیا علم تیرے واسطے
کن بہانوں سے طبعیت رہ پر لائی گئی
ہم کریں ترکِ وفا اچھا چلو یوں ہی سہی
اور اگر ترکِ وفا سے بھی نہ رسوائی گئی
کیسے کیسے چشم و عارض گردِ غم سے بجھ گئے
کیسے کیسے پیکروں کی شان زیبائی گئی
دل کی دھڑکن میں توازن آچلا ہے خیر ہو
میری نظریں بجھ گئیں یا تیری رعنائی گئی
ان کا غم، ان کا تصور ان کے شکوے اب کہاں
اب تو یہ باتیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئیں
جرأت انساں پہ گو تادیب کے پہرے رہے
فطرتِ انساں کو کب زنجیر پہنچائی گئی
عرصہء ہستی میں اب تیشہ زنوں کا دور ہے
رسمِ چنگیزی اٹھی، توقیر دارائی گئی!
ساحر لوگوں سے بے نیاز رہے۔ بے نیازی کی یہ ادا ان کی نظموں سے جگہ جگہ جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ ایک نظم کے اشعار کچھ یوں ہیں
تو میری جاں، مجھے حیرت و حسرت سے نہ دیکھ
ہم میں کوئی بھی جہانِ نور و جہاں گیر نہیں
تو مجھے چھوڑ کے ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے
تیرے ہاتھوں میں میرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں
ساحر نے اپنے تین دہائیوں پر محیط شعری سفر کے دوران ملک و قوم اور بین الاقوامی سانحوں کو اچھی طرح دل و دماغ میں بسا کر انہیں ایسے ڈھب میں پیش کیا کہ سننے والے کی زبان و حافظہ اسے اپنا لے۔ "میں نہیں تو کیا"، "یہ کس کا لہو ہے"، "میرے گیت تمہارے ہیں"، "نور جہاں کے مزار پر"، "جاگیر"، "مادام"، "لہو نذر دے رہی ہے آواز"، "آوازِ آدم"، "خوبصورت موڑ"، "لمحہ غنیمت"، ان کی مشہور و معروف نظم "تاج محل" سے بھی بہتر اور کھڑی نظمیں ہیں۔ یہی ان کی شاعری کا معیار مقرر کرتی ہیں۔
` `
ساحر کی شاعری آج کی شاعری ہے۔ اس کے تین ادوار مقرر کیے جا سکتے ہیں۔ رومان، حقیقت اور رومان۔ پہلا رومان ابتدائے شباب کا سانحہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد حقیقت کا دور ہے جس پر کارل مارکس کا اثر لگتا ہے۔ تیسرا دور بھی کسی رومان سے متعلقہ معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں نئی اٹھان ہے جو پہلے رومانی دور سے قطعی مختلف ہے۔ وہ خود ایک جگہ کہتے ہیں
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
درمیانی دور میں انہوں نے انقلابی و حقیقت پسندانہ شاعری کی ہے۔ ایک شعر ان کا ایسا ہے جو صرف ایک جہاندیدہ اور بہت تجربہ کار شاعر ہی کہہ سکتا ہے
ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت، اے مطرب
ابھی حیات کا ماحول خوشگوار نہیں
اور ماحول کی ناسازگاری کا باعث نوکر شاہی، سرمایہ داری اور اجنبی حکومت کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ ساحر کے تجربات نہایت تلخ ہیں اس لیے وہ عشق و محبت کے پوشیدہ شعلوں کو بھڑکانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ یہ کہہ کر بجھا دیتے ہیں کہ
آہ اس کشمکشِ صبح و شام کا انجام
میں بھی ناکام میری سعی عمل بھی ناکام
یہاں سے آگے ساحر کی نظموں میں عشق و محبت کا ذکر گھٹا گھوپ اندھیرے میں کوندے کی طرح چمک کر غائب ہو جاتا ہے اور کارل مارکس کے ایک مخلص مرید کی طرح، "تمہارے غم کے سوا اور بھی تو غم ہیں مجھے" کہہ کر ایک اور راہ اختیار کر لیتا ہے جہاں قدم قدم پر بھوک، افلاس، انسانیت کی آہ و پکار، بے کفن لاشوں، زرد بچوں، بلکتے ہوئے چہروں، محکومی اور سب سے زیادہ جاگیردارانہ نظام کی غلط تقسیم سے نمٹنا پڑتا ہے۔ "سوچتا ہوں"، "ناکامی"، "مجھے سوچنے دو"، اور "گریز" جیسی نظموں میں ساحر نے اردگرد پھیلی ہوئی ہولناک ظلمتوں سے نکل جانے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی روح مضحمل ہے، ان کے حوصلے شَل ہیں۔ وہ جب وطن کی غربت مجبوری اور غلامی کو دیکھتے ہیں تو صرف اتنا کہتے ہیں
"یہ غم بہت ہیں میری زندگی مٹانے کو"
اور
"مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے"
اور
"میرے بے چین خیالوں کو سکوں مل نہ سکا"
اور
"جو سچ کہوں تو مجھے موت ناگوار نہیں"
ان کی نظم "گریز" میں تذبذب اپنے عروج پر ہے اور اس نظم کا یہ شعر کتنا بے مثال اور مکمل ہے
ہر ایک ہاتھ میں لے کر ہزار آئینے
حیات بند دریچوں سے بھی گزر آئی
پھر ساحر یکدم گھبرا کر غیض و غضب کے عالم میں اگلے شعروں میں کہتے ہیں
وہ پھر کسانوں کے مجمع پر گن مشینوں سے
حقوق یافتہ طبقے نے آگ برسائی
1944 میں بنگال کے قحط نے انہیں شدید متاثر کیا، اسی اضطراب نے ان سے قحطِ بنگال جیسی نظم لکھوائی
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنیں تھیں کیا
کہ ان پر دیس کی جَنتا سسک سسک کے مرے
زمین نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا
کہ نسلِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے
مِلیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اسی لیے مالی نے خون سے سینچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
ساحر کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سیدھی سادی زبان اور عام فہم الفاظ کے ذریعے اپنے سچے خیالات و جذبات کو پیش کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔ تلخیاں کی پہلی نظم "ردِعمل" پڑھیے
چند کلیاں نشاط کی چن کر
مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
دھیمی لَے، آسان زبان اور مانوس الفاظ میں ان کی پہلی نظم ہی محبت بھرے دل کی کہانی سناتی ہے جس میں ناکامی کا شدید احساس ملتا ہے۔ تقریباً یہی تاثرات ان کی تمام نظموں کو پڑھنے سے ملتے ہیں۔
25 اکتوبر 1980ء کو غمِ دوراں اور جاناں جھیلتے اس شاعر کا ممبئی میں انتقال ہو گیا اور وہیں قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔ ان کی قبر پر ان کے چاہنے والوں نے ایک مقبرہ تعمیر کیا تھا لیکن جنوری 2010ء میں اسے منہدم کر دیا گیا۔ اب ان کی قبر کا بھی کچھ نشان پایا نہیں جاتا۔ انسان کے شدتِ احساس نے شاعری کو جنم دیا۔ تفکر کی گہرائی نے اسے پروان چڑھایا۔ مشاہدے کی ہمہ گیری اور ماحول کے اثر نے اس میں رنگ بھرے۔
ساحر کی شاعری میں جن خصوصیات نے مجھے متاثر کیا ان میں احساس کی شدت بہت نمایاں ہے۔ میں ساحر کی خصوصیات گنوا کر اور اس کے کلام سے مثالیں پیش کر کے اس تحریر کو مزید طول نہیں دینا چاہتا۔ ان کے کلام سے کوئی بھی نظم لے لیجیے، اس میں احساس کی گہرائی گندھی ہوئی محسوس ہو گی۔ آخر میں ساحر کے کلام سے اپنی پسند کی نظم پیش خدمت ہے۔
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں
تعارف روگ بن جائے تو اس کو بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا ہو ناممکن
اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

زبردستی رقم نکلوائے جانے سے کیسے بچیں؟

شہروں میں جرائم پیشہ افراد اکثر یرغمال بنا کر زبردستی اے ٹی ایم لے جاتے ہیں اور بینک اکاؤنٹ خالی کروا لیتے ہیں.— Creative Commons.ایکسپریس کڈنیپنگ اغوا کاری کی وہ قسم ہے جس میں کسی شخص کو یرغمال بنا کے اے ٹی ایم یا بینک لے جایا جاتا ہے اور تاوان کی رقم زبردستی نکلوائی جاتی ہے۔ ایک طریقے میں تو شکار کو بینک لے جا کر اس سے چیک لکھوایا جاتا ہے اور پیسے نکلوا لیے جاتے ہیں۔
ویسے یہ طریقہ ترجیحی نہیں ہے کیونکہ اس میں اغواکار بینک سکیورٹی کی جانب سے پکڑا جا سکتا ہے، یا پھر بعد میں ہونے والی تفتیش میں اسے پہچانا جا سکتا ہے۔
دوسرا اور زیادہ عام طریقہ یہ ہے کہ کسی شخص کو بالکل رات 12 بجنے سے قبل اغوا کیا جائے اور انہیں قریبی اے ٹی ایم لے جا کر ان کے کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز سے مقررہ حد تک تمام رقم نکلوا لی جائے۔ رات 12 بجنے کے بعد جیسے ہی آپ کی رقم نکلوانے کی یومیہ حد دوبارہ سیٹ ہوجاتی ہے، تو ایک بار پھر کارڈ استعمال کروائے جاتے ہیں جس سے بہت حد تک اکاؤنٹ خالی ہوجاتا ہے۔ شکار کو اس کی یا اغوا کاروں کی گاڑی میں اے ٹی ایم تک لے جایا جاتا ہے۔
اغوا کا یہ طریقہ شہروں میں زیادہ عام ہے کیونکہ ایک چھوٹے سے علاقے میں کئی اے ٹی ایم موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح کے معاملے میں شکار سے اس کا سب کچھ، یہاں تک کہ گاڑی بھی چھین لی جاتی ہے۔ اگر اغوا کاروں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان کا شکار بہت مالدار ہے اور اس سے ان کی توقعات سے زیادہ پیسے نکلوائے جا سکتے ہیں، تو یہ اغوا کاری زیادہ طویل بھی ہوسکتی ہے۔ شکار سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں سے پیسے منگوائیں، لیکن یہ طریقہ زیادہ عام نہیں ہے۔

شکار بننے کا خطرہ کیسے کم کیا جائے؟

اس طرح کے واقعات میں شکار وہ لوگ بنتے ہیں جو کہیں آ جا رہے ہوتے ہیں، اس لیے جب بھی آپ باہر ہوں تو احتیاطی تدابیر اختیار کریں:
— اپنی گاڑی کے دروازے بند اور شیشے چڑھائے رکھیں۔
— اگر موٹرسائیکل پر ہوں تو اپنی بائیک کی پچھلی سیٹ پر کوئی بیگ رکھ دیں تاکہ کوئی اچانک آپ کی پچھلی سیٹ پر نہ بیٹھ سکے۔
— اگر آپ کی گاڑی رکی ہوئی ہے تو گاڑی کے آس پاس پھرتے لوگوں سے ہوشیار رہیں۔
— اگر آپ سگنل پر رکیں اور اگر آپ کو لگے کہ آس پاس لوگوں کی موجودگی غیر معمولی ہے تو وہاں سے فوراً ہٹ جائیں۔ (یاد رکھیں کہ ایسے جرائم رات کو دیر سے ہوتے ہیں تاکہ بینک سے دو بار پیسے نکلوائے جا سکیں۔)
— گاڑی چلاتے ہوئے فون پر بات کرنے سے گریز کریں، خاص طور پر سگنلز پر۔ (آپ کا فون دیکھ کر اغوا کار آپ کی مالی حیثیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں جبکہ فون پر بات کرتے رہنے سے آپ کی توجہ آس پاس موجود مشتبہ لوگوں سے ہٹ سکتی ہے۔)
— اجنبیوں کو بالکل لفٹ نہ دیں۔ (اغوا کار بوڑھے، زخمی، سپاہی، بھکاری وغیرہ کا روپ دھار سکتے ہیں۔)
— اپنے پاس کم سے کم کریڈٹ یا اے ٹی ایم کارڈز رکھیں۔
— کارڈز کی رقم نکلوانے کی یومیہ حد بھی کم ہونی چاہیے۔
— کارڈز ایسے بینک اکاؤنٹس کے ہونے چاہیئں جن میں کم سے کم پیسے موجود ہوں۔

اگر آپ کو یرغمال بنا لیا جائے تو کیا کریں؟

— جو کہا جائے وہ کریں، اور پرسکون رہنے کی کوشش کریں۔
— کوشش کر کے اغواکاروں کا حلیہ یاد کریں تاکہ بعد میں آپ انہیں پہچان سکیں۔
— اگر اغوا کار آپ کو اے ٹی ایم لے جانے کو کہیں تو ایسے اے ٹی ایم لے جانے کی کوشش کریں جس کے بارے میں آپ کو معلوم ہو کہ وہاں کیمرا موجود ہے۔
— اگر آپ نظروں میں آئے بغیر بینک کا فون استعمال کر سکیں، کریں۔ پر اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر آپ (نظروں میں آئے بغیر) بینک فون کو نیچے لٹکا دیں اور تیز آواز میں بولنا شروع کر دیں۔ (بینک ہیلپ لائن آپریٹرز عام طور پر ایسی کالز کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں جب کسٹمر خطرے میں ہو۔)
— غلط خفیہ کوڈ ڈالنا، جس سے پیسے نہ نکلیں، اغوا کاروں کو تشدد پر آمادہ کر سکتا ہے۔ چاہے آپ حقیقت میں پریشانی کے باعث پن کوڈ بھول جائیں، مگر اغوا کار یہی سمجھیں گے کہ آپ جان بوجھ کر وقت ضائع کر رہے ہیں۔
— اے ٹی ایم ان کارڈز کو مسترد کر دیتے ہیں جو صحیح حالت میں نہ ہوں، لہٰذا اگر ممکن ہو تو مشین میں کارڈ ڈالتے ہوئے پشت پر موجود سیاہ مقناطیسی پٹی کو کھرچ دیں۔ (یاد رکھیں کہ ایسا صرف تب کریں جب آپ نظروں میں آئے بغیر کر سکیں۔)
— اگر نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو بھاگنے کی کوشش کریں، مگر اغوا کاروں کے پاس عام طور پر اسلحہ موجود ہوتا ہے اور وہ گولی مارنے میں دیر نہیں کرتے۔
— ان سے کسی بھی طرح کی جسمانی مزاحمت بالکل نہ کریں جب تک کہ آپ کو مکمل یقین نہ ہو کہ آپ کے زندہ بچ نکلنے کا یہی ایک راستہ ہے۔
یاد رکھیں: آپ کا تحفظ اغوا کار کو اشتعال نہ دلانے میں ہے۔ صرف آپ ہی اس وقت کی درست حالت کا اندازہ لگا کر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اوپر موجود نکات میں سے کس نکتے پر عمل کرنا ہے۔ یہ مکمل طور پر آپ کے اپنے اور حالات پر منحصر ہے۔
اغوا کار عام طور پر اکیلے کام نہیں کرتے۔ جو سامنے موجود ہوتے ہیں، ان کے علاوہ ان کے مددگار بھی آس پاس مگر نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں اور اپنے ساتھی کی مدد کو فوراً پہنچتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ یہ ذہن میں رکھیں کہ آپ اور وہ اغوا کار صرف دو اشخاص نہیں۔ جو قدم اٹھائیں، یہی سوچ کر اٹھائیں۔
— ایک بار جب آپ گھر پہنچ جائیں، تو حکام کو واقعے کی اطلاع دینا نہ بھولیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 1 نومبر 2015 کو شائع ہوا۔

CIE Computer Science Exam May/June 2016

CIE Computer Science May/June 2015 Time Table:
OL:
P1 Tuesday 24 May
P2 Thursday 26 May
AS:
P1 Thursday 12 May
P2 Tuesday 17 May
A2:
P3 Tuesday 24 May
P4 Thursday 26 May

George Boole: Happy Birthday

George Boole was an English mathematician, educator, philosopher and logician. He worked in the fields of differential equations and algebraic logic, and is best known as the author of The Laws of Thought which contains Boolean algebra.
Image result for George Boole
Image result for George Boole
Image result for George Boole
Image result for George Boole
Image result for George Boole
Image result for George Boole
Image result for George Boole

Born: November 2, 1815, Lincoln, United Kingdom
Spouse: Mary Everest Boole (m. 1855–1864)