ایکسپریس کڈنیپنگ اغوا کاری کی وہ قسم ہے جس میں کسی شخص
کو یرغمال بنا کے اے ٹی ایم یا بینک لے جایا جاتا ہے اور تاوان کی رقم
زبردستی نکلوائی جاتی ہے۔ ایک طریقے میں تو شکار کو بینک لے جا کر اس سے
چیک لکھوایا جاتا ہے اور پیسے نکلوا لیے جاتے ہیں۔
ویسے یہ طریقہ
ترجیحی نہیں ہے کیونکہ اس میں اغواکار بینک سکیورٹی کی جانب سے پکڑا جا
سکتا ہے، یا پھر بعد میں ہونے والی تفتیش میں اسے پہچانا جا سکتا ہے۔
دوسرا
اور زیادہ عام طریقہ یہ ہے کہ کسی شخص کو بالکل رات 12 بجنے سے قبل اغوا
کیا جائے اور انہیں قریبی اے ٹی ایم لے جا کر ان کے کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز
سے مقررہ حد تک تمام رقم نکلوا لی جائے۔ رات 12 بجنے کے بعد جیسے ہی آپ کی
رقم نکلوانے کی یومیہ حد دوبارہ سیٹ ہوجاتی ہے، تو ایک بار پھر کارڈ
استعمال کروائے جاتے ہیں جس سے بہت حد تک اکاؤنٹ خالی ہوجاتا ہے۔ شکار کو
اس کی یا اغوا کاروں کی گاڑی میں اے ٹی ایم تک لے جایا جاتا ہے۔
اغوا
کا یہ طریقہ شہروں میں زیادہ عام ہے کیونکہ ایک چھوٹے سے علاقے میں کئی اے
ٹی ایم موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح کے معاملے میں شکار سے اس کا سب کچھ، یہاں
تک کہ گاڑی بھی چھین لی جاتی ہے۔ اگر اغوا کاروں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان
کا شکار بہت مالدار ہے اور اس سے ان کی توقعات سے زیادہ پیسے نکلوائے جا
سکتے ہیں، تو یہ اغوا کاری زیادہ طویل بھی ہوسکتی ہے۔ شکار سے کہا جا سکتا
ہے کہ وہ اپنے گھر والوں سے پیسے منگوائیں، لیکن یہ طریقہ زیادہ عام نہیں
ہے۔
شکار بننے کا خطرہ کیسے کم کیا جائے؟
اس طرح کے واقعات میں شکار وہ لوگ بنتے ہیں جو کہیں آ جا رہے ہوتے ہیں، اس لیے جب بھی آپ باہر ہوں تو احتیاطی تدابیر اختیار کریں:
— اپنی گاڑی کے دروازے بند اور شیشے چڑھائے رکھیں۔
— اگر موٹرسائیکل پر ہوں تو اپنی بائیک کی پچھلی سیٹ پر کوئی بیگ رکھ دیں تاکہ کوئی اچانک آپ کی پچھلی سیٹ پر نہ بیٹھ سکے۔
— اگر آپ کی گاڑی رکی ہوئی ہے تو گاڑی کے آس پاس پھرتے لوگوں سے ہوشیار رہیں۔
—
اگر آپ سگنل پر رکیں اور اگر آپ کو لگے کہ آس پاس لوگوں کی موجودگی غیر
معمولی ہے تو وہاں سے فوراً ہٹ جائیں۔ (یاد رکھیں کہ ایسے جرائم رات کو
دیر سے ہوتے ہیں تاکہ بینک سے دو بار پیسے نکلوائے جا سکیں۔)
— گاڑی
چلاتے ہوئے فون پر بات کرنے سے گریز کریں، خاص طور پر سگنلز پر۔ (آپ کا
فون دیکھ کر اغوا کار آپ کی مالی حیثیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں جبکہ فون
پر بات کرتے رہنے سے آپ کی توجہ آس پاس موجود مشتبہ لوگوں سے ہٹ سکتی
ہے۔)
— اجنبیوں کو بالکل لفٹ نہ دیں۔ (اغوا کار بوڑھے، زخمی، سپاہی، بھکاری وغیرہ کا روپ دھار سکتے ہیں۔)
— اپنے پاس کم سے کم کریڈٹ یا اے ٹی ایم کارڈز رکھیں۔
— کارڈز کی رقم نکلوانے کی یومیہ حد بھی کم ہونی چاہیے۔
— کارڈز ایسے بینک اکاؤنٹس کے ہونے چاہیئں جن میں کم سے کم پیسے موجود ہوں۔
اگر آپ کو یرغمال بنا لیا جائے تو کیا کریں؟
— جو کہا جائے وہ کریں، اور پرسکون رہنے کی کوشش کریں۔
— کوشش کر کے اغواکاروں کا حلیہ یاد کریں تاکہ بعد میں آپ انہیں پہچان سکیں۔
—
اگر اغوا کار آپ کو اے ٹی ایم لے جانے کو کہیں تو ایسے اے ٹی ایم لے جانے
کی کوشش کریں جس کے بارے میں آپ کو معلوم ہو کہ وہاں کیمرا موجود ہے۔
—
اگر آپ نظروں میں آئے بغیر بینک کا فون استعمال کر سکیں، کریں۔ پر اگر
ایسا ممکن نہ ہو تو پھر آپ (نظروں میں آئے بغیر) بینک فون کو نیچے لٹکا
دیں اور تیز آواز میں بولنا شروع کر دیں۔ (بینک ہیلپ لائن آپریٹرز عام
طور پر ایسی کالز کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں جب کسٹمر خطرے میں ہو۔)
—
غلط خفیہ کوڈ ڈالنا، جس سے پیسے نہ نکلیں، اغوا کاروں کو تشدد پر آمادہ
کر سکتا ہے۔ چاہے آپ حقیقت میں پریشانی کے باعث پن کوڈ بھول جائیں، مگر
اغوا کار یہی سمجھیں گے کہ آپ جان بوجھ کر وقت ضائع کر رہے ہیں۔
—
اے ٹی ایم ان کارڈز کو مسترد کر دیتے ہیں جو صحیح حالت میں نہ ہوں، لہٰذا
اگر ممکن ہو تو مشین میں کارڈ ڈالتے ہوئے پشت پر موجود سیاہ مقناطیسی پٹی
کو کھرچ دیں۔ (یاد رکھیں کہ ایسا صرف تب کریں جب آپ نظروں میں آئے بغیر
کر سکیں۔)
— اگر نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو بھاگنے کی کوشش کریں، مگر
اغوا کاروں کے پاس عام طور پر اسلحہ موجود ہوتا ہے اور وہ گولی مارنے میں
دیر نہیں کرتے۔
— ان سے کسی بھی طرح کی جسمانی مزاحمت بالکل نہ کریں جب تک کہ آپ کو مکمل یقین نہ ہو کہ آپ کے زندہ بچ نکلنے کا یہی ایک راستہ ہے۔
یاد رکھیں:
آپ کا تحفظ اغوا کار کو اشتعال نہ دلانے میں ہے۔ صرف آپ ہی اس وقت کی
درست حالت کا اندازہ لگا کر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اوپر موجود نکات میں
سے کس نکتے پر عمل کرنا ہے۔ یہ مکمل طور پر آپ کے اپنے اور حالات پر منحصر
ہے۔
اغوا کار عام طور پر اکیلے کام نہیں کرتے۔ جو سامنے موجود ہوتے
ہیں، ان کے علاوہ ان کے مددگار بھی آس پاس مگر نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں
اور اپنے ساتھی کی مدد کو فوراً پہنچتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ یہ ذہن میں رکھیں
کہ آپ اور وہ اغوا کار صرف دو اشخاص نہیں۔ جو قدم اٹھائیں، یہی سوچ کر
اٹھائیں۔
— ایک بار جب آپ گھر پہنچ جائیں، تو حکام کو واقعے کی اطلاع دینا نہ بھولیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 1 نومبر 2015 کو شائع ہوا۔
0 comments:
Post a Comment