Inqilab Patel's Magazine is a Students Resource Centre. It is developed to facilitate students of IT, O / A Level and Business Administration in their studies and to make them literate on current Global Political Issues.
RIC: Ruknuddin Insitute of Computer (Management, IT) is established in April 15, 1995 by Inqilab Ruknuddin Patel. It is organising Skill Development Programmes (SDP) in the fields of Information Technology and Business Administration.
It is important to
be able to identify errors and suggest corrections in a pseudo code algorithm.
When algorithm is correct but less efficient, students are asked to suggest
improvements.
When the task is changed then you are asked to modify the pseudo code.
کیا آپ خود کو ذہنی طور پر تیز سمجھتے ہیں ؟ اگر ہاں تو چلیں اوپر موجود تصویر میں چھپے جہاز کو تلاش کرکے بتائیں۔
انٹرنیٹ پر آئے روز نئے اور دماغ گھما دینے والی تصاویر سامنے آتی رہتی ہیں۔
مگر اوپر موجود تصویر کا معمہ انتہائی مشکل اور اگر آپ نے نیچے جواب کو نہیں دیکھا تو ہوسکتا ہے کہ گھنٹوں آپ اسکرین کو گھورتے ہوئے جہاز کو تلاش ہی کرتے رہیں۔
درحقیقت سو میں سے بمشکل دس افراد ہی اس تصویر میں جہاز کو تلاش کرپاتے ہیں۔
اساتذہ والدین ملاقات یعنی پیرنٹ ٹیچر میٹنگ کے دن ایک والد صاحب تشریف لائے بحیثیت
جماعت معلمہ یعنی کلاس ٹیچرکے معلمہ سے انکی بات ہوئی، موصوف درجہ دہم کے
اساتذہ کے بارے میں فرمانے لگے، " مذاق لگا رکھا ہے آپ لوگوں نے،اپنے "فرض"
کا کوئی احساس ہے یا نہیں؟؟ میرے بیٹا بتا رہا ہے کہ ٹیچر صاحب "تھوڑا سا"
پڑھا کر باقی سب ہوم ورک دے دیتے ہیں، ہم اتنی بھاری فیس اسلئے بھرتے ہیں
کہ ٹیچرز پڑھائے بغیرہماری دی ہوئی فیسوں پہ عیش کریں؟؟؟ والدین فیس نہ دیں
تو سیلری رک جائیں گی آپ لوگوں کی!!!! معلمہ نے تحمل سے
انکی دولت اور مرتبے کے گھمنڈ میں ڈوبی ہوئی بات سنی اور کہا،"سر! پہلی بات
یہ کہ آپ اگر فیس نہیں دیںگے تو ہماری سیلری رکنے سے پہلے آپ کی اولاد کا
اسکول سے نام کٹ جائے گا لہذا ہماری فکر سے پہلے اپنے بچؔے کی تعلیم کی فکر
کریں اور۔۔۔۔ والد صاحب نے منہ کھولتے ہوئے کچھ کہنا چاہا، معلمہ نے سیدھا
ہاتھ اٹھا کر انہیں روکا اور انتہائی سرد لہجے میں کہا، میری بات ابھی
مکمل نہیں ہوئی، اخلاقیات کا تقاضہ ہے کہ اگر میں نے آپ کی مکمل بات سنی ہے
تو آپ بھی مجھے اپنی بات مکمل کرنے دیں۔۔۔۔۔۔ دوسری بات
یہ کہ آپ کی اداشدہ فیس آپ کے بچے کی تعلیم کا معاوضہ ہے اورہم اساتذہ کی
تنخواہیں ہماری تدریسی خدمات کا معاوضہ ہیں جو اسکول انتظامیہ نے حاصل کی
ہیں آپ نے نہیں تیسری بات یہ کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ
اساتذہ آپ کے بقول "تھوڑا سا" پڑھا کر باقی طلبہ پہ چھوڑ دیتے ہیں تو آپ
آذاد ہیں، آپ پورا نہیں آدھا ہی پڑھا دیں، ہم اساتذہ بیک وقت پچیس سے
پیتینس طلبہ پڑھاتے ہیں، آپ فقط ایک کو ہی پڑھا دیں، اتنا تو آپ پہ آپ کے
بچے کا "حق" ہے کہ نہیں؟ ــــــــــــــــــــــــــــــــــ پھر
کیا ہوا غالباً یہ اتنا اہم نہیں لیکن اہم یہ ہے کہ "ہمارے پیسوں سے،
ہمارے ٹیکسوں سے انکو تنخواہ ملتی ہے" کی سوچ اتنی پختہ ہوچکی ہے کہ ابؔا
کی تنخواہ/جائیداد/کاروبار پہ پلنے والے اور سارا دن مفت کی روٹیاں توڑ کر
عیاشی کرنے والے بھی اپنی نام نہاد کمائی کا احسان کبھی نجی محفلوں تو کبھی
سوشل میڈیا پہ جتا رہے ہوتے ہیں، خاص نظرِ کرم فوج اور اس سے متعلقہ
اداروں پہ ہوتی ہے جہاں دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہوا، سارے
ممی ڈیڈی سوال پوچھنے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ فوج کیا کر رہی ہے، فیس بک پہ
لکھا ہوا ایک جملہ تو سیاہ ترین حرفوں سے لکھنے کے قابل ہے کہ" ہم "اپنا
پیٹ کاٹ کر" جن فورسز کو پال رہے ہیں وہ ہماری حفاظت کیوں نہیں کرتے" ایسے
مبالغہ آراء افراد سے معلمہ فقط اتنا ہی کہیں گی کہ اگر آپ کو اپنی کمائی
کے ضیاع کا اتنا ہی غم ہے تو بہترہے کمانا ہی چھوڑ دیں، کیا فائدہ کٹے ہوئے
پیٹ میں غذا ڈالنے کا؟ اور ساتھ ہی، سیاچن کے سرد ترین
پہاڑوں پہ نہیں، زلزلے کے متاثرین کے ساتھ بھی نہیں اور پاک افغان سرحد پہ
بھی نہیں،فقط ایک رات پاکستان شپ آنر کالج کراچی کے سامنے چورنگی پہ اسلحہ
پکڑ کر ساری رات الرٹ کھڑے رہیں، خود پتا چل جائے گا کہ فورسز کے جوان کو
تنخواہ آپ کے کٹے ہوئے پیٹ کی ملتی ہے یا انکی ادائیگی فرض کی اور
اگر اتنی بھی ہمت نہیں تواپنی ایک عید سربراہ پاک فوج کی طرح محاذِ جنگ پہ
موجود سپاہیوں کے ساتھ منالیں، ساری زندگی عید ہی منانے سے توبہ نہ کرلی
تو معلمہ نام نہیں۔۔۔۔۔ ــــــــــــــــــــــــــ معلمہ ریاضی صفحہ منتظم، معلمہ کی باتیں، مرچیں لگا دیں
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورس مظاہرین کو منتشرکرنے کے لیے پیلٹ گن یعنی چھرے والی بندوق کا استعمال کر رہے ہیں۔
یہ بندوق جان لیوا نہیں ہے لیکن ان بندوقوں کے سبب کئی مظاہرین کو شدید چوٹیں لگی ہیں۔
کئی بار مظاہرین کے پاس کھڑے ہوئے لوگ بھی ان سے زخمی ہوئے ہیں اس سے بہت سے لوگوں کی آنکھوں کی روشنی تک چلی گئی ہے۔
پیلٹ گن کیا ہے؟
یہ پمپ کرنے والی بندوق ہے جس میں کئی طرح کے کارتوس استعمال ہوتے ہیں۔یہ کارتوس 5 سے 12 کی رینج میں ہوتے ہیں، پانچ کو سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اثر کافی دور تک ہوتا ہے۔
پیلٹ گن سے تیز رفتار چھوٹے لوہے کے بال فائر کیے جاتے ہیں اور ایک کارتوس میں ایسے لوہے کے 500 تک بال ہو سکتے ہیں۔
فائر کرنے کے بعد کارتوس ہوا میں پھوٹتے ہیں اور چھرے چاروں سمت میں جاتے ہیں۔
پیلٹ گن، عام طور سے شکار کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، کیونکہ اس سے چھرے چاروں طرف بکھرتے ہیں اور شکاری کو اپنے ہدف پر نشانہ لگانے میں آسانی ہوتی ہے۔
لیکن کشمیر میں یہ گن انسانوں پر استعمال ہو رہی ہے اورلوگوں میں خوف پیدا کر رہی ہے۔
اس ہتھیار کو 2010 میں کشمیر میں بدامنی کے دوران سکیورٹی فورسز نے استعمال کیا تھا جس سے 100 سے زیادہ مظاہرین کی موت ہو گئی تھی۔
سکیورٹی فورس کیا کہتی ہیں؟
کشمیر میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے پبلک ریلشنز آفیسر راجیشور یادو کہتے ہیں کہ سی آر پی ایف کے جوان مظاہرین سے نمٹنے کے دوران’زیادہ سے زیادہ تحمل‘ برتتے ہیں۔
راجیشور یادو کہتے ہیں ’احتجاج کو ناکام کرنے کے لیے ہم 9 نمبر کی کارٹریجز (کارتوس) استعمال کرتے ہیں اس کا کم سے کم اثر ہوتا ہے اور یہ مہلک نہیں ہے‘۔
لیکن یادو کی بات سے اتفاق نہ کرنے والے ایک اعلیٰ پولیس افسران اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ سکیورٹی فورسز کو مجمے کو منتشر کرنے کے لیے 12 نمبر کے کارتوس استعمال کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ بہت ہی مشکل حالات میں نمبر 9 کارتوس کا استعمال ہونا چاہیے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری تازہ مظاہروں کے دوران دو افراد کی موت ایسی ہی گنز سے ہوئی ہے۔لوگوں نے پیلٹ گنز کے استعمال پر سوال اٹھائے ہیں.
جو لوگ پیلٹ گن کے استعمال سے زخمی ہوتے ہیں، ان کو گھر والوں کو علاج کے لیے کشمیر کے باہر لے جانا پڑتا ہے۔
شمالی کشمیر کے بارہ مولہ علاقے کے رہنے والے کبیر کی پیلٹ گن سے زخمی ہونے کے بعد دونوں آنکھوں کی روشنی چلی گئی ہے.
کبیر کے خاندان کو اس کے علاج کے لیے کافی رقم کا انتظام کرنا پڑا ان کے والد سڑک کے کنارے ریڑی لگا کر بہت ہی مشکل سے گھر چلاتے ہیں.
کبیر کی ماں کہتی ہیں،’مجھے اپنے زیورات فروخت پڑے تاکہ کشمیر کے باہر علاج کا خرچ اٹھایا جا سکے، وہ بھی ناکافی رہا اور ہمیں اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے پیسے قرضے لینے پڑے‘۔
اسی سال مارچ میں 15 سالہ عابد میر کو اس وقت پیلٹ گن سے چوٹ لگی جب وہ ایک شدت پسند کی تدفین سے واپس آ رہے تھے۔
میر کے خاندان کو دوسروں سے ادھار مانگ کر اپنے بیٹے کا علاج کرانا پڑا. کشمیر میں ٹھیک طریقے سے علاج نہ ہو پانے کی وجہ ان لوگوں نے امرتسر میں علاج کرنے کا فیصلہ کیا۔
میر کے چچا کا کہنا ہے کہ ’انہیں علاج میں تقریباً دو لاکھ روپے خرچ کرنے پڑے‘۔
’مردوں کی طرح جینے سے موت بہتر‘
جن لوگوں کی پیلٹ گنز لگنے سےبینائی مکمل طور پر چلی جاتی ہے، وہ ذہنی جھٹکا، مایوسی اور ڈپریشن میں ڈوب جاتے ہیں۔
ایک پل میں ان کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہے۔
ڈار گریجویشن کے آخری سال میں تھے جب ان کی آنکھیں پیلٹ سے زخمی ہوئیں۔
ڈار کہتے ہیں، ’مجھے پانچ مرتبہ سرجری کرانی پڑی اور تقریباً ایک سال تک میں مکمل اندھیرے میں رہا۔ اب میری بائیں آنکھ میں تھوڑی روشنی واپس آئی ہے‘۔
انھوں نے کہاجب میری آنکھوں کی روشنی چلی گئی تو میں اکثر اوپر والے سے دعا کرتا تھا کہ وہ مجھے مار ہی ڈالے کیونکہ مردوں کی طرح زندہ رہنے کی بجائے موت بہتر ہے‘۔
عبدالستار ایدھی کی وفات سے جہاں پورا ملک غم کے عالم میں ڈوبا ہوا ہے وہیں، بین الاقوامی میڈیا نہ صرف عبدالستار ایدھی کی افسوسناک وفات پر انسانیت سے ان کی بے لوث محبت کا اعتراف کر رہا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ زبردست خراج عقیدت بھی پیش کر رہا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی ویب سائٹ پر عبدالستار ایدھی کی وفات کی خبر دیتے ہوئے ان کی سادگی، ایمانداری اور سخت محنت کے عزم کو نمایاں کرتے ہوئے ان کی انسانیت کے لیے خدمات کا تفصیلی جائزہ دیا۔
بی بی سی نے اپنی خبر میں لکھا کہ 'مقبول پاکستانی انسان دوست عبدالستار ایدھی جنہوں نے اپنی ساری زندگی غریبوں کے نام کردی وہ 88 کی عمر میں وفات پا گئے۔'
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی ویب سائیٹ پر تحریر کیا گیا کہ جنوبی ایشیائی ملکوں کے کئی لوگ انہیں 'زندہ ولی' مانتے تھے۔
رائٹرز کی خبر میں ہندوستان کی وزیر خارجہ کا بیان بھی شامل کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ”وہ (عبدالستار ایدھی) انتہائی عظیم انسان تھے اور انہوں نے اپنی پوری زندگی انسانیت کے نام کردی۔”
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے بھی عبدالستار ایدھی کی وفات پر انسانیت کے لیے ان کی فلاحی خدمات کا مختصراً جائزہ لیا۔
ہندوستان ٹائمز نے عبدالستار ایدھی کی انسانی خدمت کو نمایاں انداز میں پیش کیا گیا۔ اپنی ویب سائیٹ پر ہندوستان ٹائمز نے عبدالستار ایدھی کی وفات کے متعلق خبر میں لکھا کہ عبدالستار ایدھی نے لاکھوں غریبوں کی مدد کی۔
ہندوستان کے ایک اور نامور اخبار دی ہندوکی ویب سائیٹ پر عظیم سماجی کارکن کی وفات کی خبر کی شہ سرخی کچھ یوں تھی: “عبدالستار ایدھی، پاکستان کے 'فادر ٹریسا' کراچی میں وفات پا گئے۔”
دی انڈین ایکسپریس کی ویب سائیٹ نے خبر میں لکھا کہ،''اپنی تمام زندگی انسانیت اور سماجی خدمات کے نام کرنے والے پاکستان کے مقبول خادم انسانیت، عبدالستار ایدھی 92 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔''
امریکی خبر رساں ادارے وائس آف امریکہ نے اپنی ویب سائیٹ پر عبدالستار ایدھی کی وفات کی خبر دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ''ایدھی اپنی سادہ طبیعت، عاجزانہ طرز زندگی کی وجہ سے مقبول تھے اور انہوں نے 1947 میں ملک کے قیام کے بعد منتخب رہنماؤں سے زیادہ پاکستانی لوگوں کو مدد کی۔ انہیں اکثر پاکستان کا رحمت کا فرشتہ پکارا جاتا تھا۔''
گارجین کی ویب سائیٹ پر ایدھی صاحب سے متعلق خبر کی شہ سرخی میں لکھا گیا کہ ”خادم انسان عبدالستار ایدھی، پاکستان کے 'رحمت کے فرشتے' 88 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔
دی گلف نے بھی دیگر میڈیا کے اداروں کی طرح غریبوں اور مفلسوں کی مدد کے لیے اپنی خدمات پر عبدالستار کو 'رحمت کا فرشتہ' لکھا ہے۔
نیو یارک ٹائمز کی سرخی تھی کہ ''عبدالستار ایدھی، پاکستان کے 'فادر ٹریسا' 88 سال کی عمر میں وفات پا گئے''۔
اس کے ساتھ ساتھ نیو یارک ٹائمز نے ایدھی کے کچھ بیانات کو بھی خبر میں شامل کیا ہے، ایک جگہ ایدھی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ ”لوگ تعلیم یافتہ تو ہو چکے ہیں مگر انہیں ابھی انسان بننا باقی ہے''۔
واشنگٹن پوسٹ کی سرخی تھی کہ ''عبدالستار ایدھی پاکستان کے غریبوں اور ضرورت مندوں کے ہیرو تھے”، خبر میں ایدھی کی بلاامتیازی خدمت انسانی کا اعتراف کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ عبدالستار ایدھی کئی ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ انہیں 1989 میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے نشانِ امتیاز دیا گیا تھا، جبکہ سابقہ سوویت یونین، ہندوستان، فلپائن، اور دیگر کئی ممالک میں انہیں اعلیٰ ترین ایوارڈز اور اعزازی ڈگریوں سے نوازا جا چکا ہے۔
ڈاکٹر تو بڑے بھائی کو بننا تھا مگر جب حادثاتی طور پر ڈوبنے کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی تو والدہ کی خواہش کے احترام میں چھوٹے بیٹے ادیب الحسن رضوی نے خاموشی سے انجینئرنگ کے مضامین کو خیر باد کہا اور طب کے شعبے کو اپنا لیا۔
1972 میں انگلینڈ سے سرجری میں مہارت کے بعد واپسی ہوئی۔ ادیب صاحب برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ سروس نظام سے بہت متاثر تھے اور بائیں بازو کے طالبعلمانہ پس منظر کے سبب ہر انسان کے بلاامتیاز مفت علاج کے حق پر شدت سے قائم تھے۔
پر جواں سال ادیب الحسن کو نہیں معلوم تھا کہ یہ سب کیسے ہوگا۔
سول ہسپتال کراچی میں آٹھ بستروں پر مشتمل یورولوجی کے شعبے سے ابتدا کی۔ 1989 میں یورولوجی وارڈ میں گردوں کے مفت ڈائلیسس کی سہولت قائم ہوئی لیکن ڈائلیسس کسی مریض کی زندگی میں چند برس کا اضافہ تو کرسکتا تھا اسے معمول کی زندگی نہیں دے سکتا تھا۔
چنانچہ ڈاکٹر ادیب الحسن نے آس پاس کے طبی ماہرین کے سمجھانے بجھانے کے باوجود ایک مریض پر 1985 میں کڈنی ٹرانسپلانٹ کا جوا کھیلا اور پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہوگیا جہاں کڈنی ٹرانسپلانٹ کا مہنگا عمل بیرونِ ملک جائے بغیر اور مریض کے امیر و کبیر ہوئے بغیر بھی ممکن ہوگیا۔
یوں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن باقی دنیا سے بھی متعارف ہوگیا۔
مگر اتنا مہنگا علاج مختصر سے سرکاری بجٹ میں مفت کرنا ناممکن سا خواب تھا۔چنانچہ خداترس رؤسا نے انسٹی ٹیوٹ کا ہاتھ تھاما اور کروڑوں روپے مالیت کا انفراسٹرکچر ، جدید طبی آلات و تربیت اور مریضوں کی دیکھ بھال کا ہمالیہ سر کرنے کی راہ نکلی۔
2003 میں ایک اور سنگِ میل طے ہوا اور جگر کے ٹرانسپلانٹ کا مرحلہ کامیابی سے عبور ہوگیا
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ افراد صرف اس لیے مر جاتے ہیں کہ ان کے ناکارہ اعضا کی تبدیلی کے لیے صحت مند اعضا عطیہ کرنے والے نہیں ملتے۔
اس رکاوٹ کو علماِ کرام کے فتووں اور پارلیمانی قانون سازی کے ذریعے اگرچہ دور کر لیا گیا ہے ، اس کے باوجود اب تک لگ بھگ پانچ ہزار افراد نے ہی بعد ازمرگ اپنے اعضا عطیہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بقول ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ایک ڈونر اگر چاہے تو مرنے کے بعد اپنے مختلف اعضا کے عطیے سے 17 مریضوں کو نئی زندگی دے سکتا ہے۔
آج تصویر یوں ہے کہ ایس آئی یو ٹی دنیا کا سب سے بڑا ڈونر ٹرانسپلانٹ سینٹر بن چکا ہے۔یہاں 31 برس کے دوران گردے کی ٹرانسپلانٹیشن کے لگ بھگ پانچ ہزار کامیاب آپریشن ہو چکے ہیں۔ہر ہفتے 12 ٹرانسپلانٹ اور 750 ڈائلیسس ہو رہے ہیں۔
ایس آئی یو ٹی پاکستان کے مختلف علاقوں میں آٹھ ذیلی مراکز قائم کر چکا ہے۔ افغانستان تک سے لاچار مریض آتے ہیں۔ کسی کو واپس نہیں لوٹایا جاتا اور کسی سے رقم نہیں لی جاتی۔ہر سال دس لاکھ سے زائد مریض ایس آئی یو ٹی کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
اس پس منظر میں جب دو روز قبل ایک چینل اور ایک اخبار یہ خبر سامنے لائے کہ ایس آئی یو ٹی میں حیدرآباد سے ڈائلیسس کے لیے آنے والی ایک مریضہ کا گینگ ریپ ہوا ہے تو دل و دماغ کو دس ہزار وولٹ کا جھٹکا لگا۔
کراچی کے عیدگاہ تھانے میں مریضہ کے ایک رشتے دار صدام کی مدعیت میں ایس آئی یو ٹی کے چھ نامعلوم ملزموں کے خلاف ایف آئی آر کٹی۔ ریپ کی تصدیقی میڈیکل رپورٹ بھی آ گئی۔
پولیس نے جب ایس آئی یو ٹی کے اندر جگہ جگہ نصب سی سی ٹی وی کیمروں کے فوٹیج کی تفصیلی چھان پھٹک کی تو ایسے کسی واقعہ کا سراغ نہ مل پایا۔ مریضہ جتنی دیر بھی ایس آئی یو ٹی میں رہی اس کی فوٹیج موجود ہے۔
بالاخر پولیس کی اضافی تفتیش کے نتیجے میں ایف آئی ار درج کرانے والے مدعی صدام نے اعتراف کیا کہ ریپ ہوا مگر ایس آئی یو ٹی میں نہیں، اس گھر میں کہ جہاں مریضہ ٹھہری ہوئی تھی۔
پولیس نے اب غلط بیانی کے جرم میں مدعی ، مریضہ اور اس کی بہن کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایس آئی یو ٹی کے ترجمان ڈاکٹر بخش علی کا کہنا ہے کہ یہ ڈرامہ شائد اس لیے رچایا گیا تاکہ رمضان کے مہینے میں ایس آئی یو ٹی کو چندہ دینے والی خلقِ خدا کو برگشتہ کیا جاسکے یا ممکن ہے کہ کوئی اور سازش ہو۔
ماضی میں عبدالستار ایدھی کو بھی یہ الزام لگا کر متنازع بنانے کی کوشش کی گئی کہ ایدھی کا عملہ لاوارث لاشیں طبی اداروں یا جادو ٹونے والوں کو فروخت کرتا ہے۔
ایسے اداروں اور شخصیات پر الزام لگانے والے اکثر جوابی سوالات کی تاب نہیں لا پاتے اور کسی پتلی گلی میں گم ہوجاتے ہیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن اور ایس آئی یو ٹی جیسے اداروں کو بقول میری نانی لال مرچوں کی نظر اکثر اتارتے رہنا چاہیے کیونکہ حسد، لالچ اور سازش کی بلائیں تو شکار کی تلاش میں منڈلاتی ہی رہتی ہیں۔