آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے شدید کمزور نظر والوں کے لیے سمارٹ چشمے بنانے کی سمت میں اہم کامیابی حاصل کی ہے۔
یہ چشمے اپنے نزدیک موجود لوگوں اور چیزوں کی تصویر کا سائز بڑھا دیتے ہیں جو اپنے ارد گرد کے ماحول کی زیادہ صاف تصویر مہیا کرتا ہے۔
اس چشمے کے استعمال کے نتیجے میں کچھ لوگ اپنے ’گائیڈ ڈاگ‘ کو پہلی بار دیکھنے کے قابل ہو سکے ہیں۔
رائل نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلائنڈ پیپل کا کہنا ہے کہ یہ چشمہ ’انتہائی اہم‘ ہو سکتا ہے۔
لین اولیور کو آنکھ کی بیماری ’پروگریسیو آئی ڈذيز‘ ہے جس کی وجہ سے وہ بہت کم دیکھ پاتی ہیں۔ ابھی وہ 70 سال کی ہے لیکن جب وہ بيس سال کی عمر میں ہی انہیں ریٹنا ٹس پگمیٹوسا کے بارے میں پتہ چلا تھا۔
وہ ارد گرد میں ہو رہی حرکتوں کو بھانپ لیتی ہیں لیکن ان کے مطابق ان کی نظر ’دھبا نما اور دھندلائی‘ ہوئی ہوتی ہے۔
ان کا گائیڈ ڈاگ جیس رکاوٹوں اور خطرات سے بچاتے ہوئے انہیں راستہ تلاش میں مدد کرتا ہے لیکن ارد گرد کے بارے میں وہ دیگر معلومات کو نہیں دے سکتا ہے۔
لِن برطانیہ میں ان دو لاکھ لوگوں میں سے ایک ہے جن کی روز مرہ کی زندگی سنگین نظر مسئلہ کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر میں تھوڑی بہت نظر بچی ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں محققین نے سمارٹ چشمے کا استعمال کر اسے بڑھانے کا طریقہ تیار کیا ہے۔ ان چشموں میں ایک خاص طرح کا 3 ڈی کیمرے لگے ہے۔
اس چشمہ سے نظر آنے والی تصاویر کے کمپیوٹر کی مدد سے عمل ہو کر اسی وقت لوگوں کو ارد گرد کی چیزوں کی واضح تصویر فراہم کرتی ہے۔
ان چشموں کو اس سے پہلے دیگر ماڈلز بھی آزما چکے ہیں لیکن ماڈل اس منصوبے میں ایک اہم مرحلہ ہے۔
یہ زیادہ وضاحت کے ساتھ دیکھنے میں مدد کرتی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر سٹیفن ہِكس جو اس منصوبے کی قیادت کر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ وہ ان کی تحقیق کو گھر میں استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کو استعمال کرنے والوں نے بہت اچھی رائے دی ہے۔
رائل نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلائنڈ پیپل اس منصوبہ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ادارے کے جان ورسفولڈ کا کہنا ہے کہ یہ لوگوں کی زندگی میں ایک بڑا فرق پیدا کر سکتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment