شمائلہ جعفری
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، گلگت بلتستان
انسہ خان کو پاکستان ہجرت کیے ہوئے 60 برس ہوچکے ہیں۔
وہ
1950 میں چین کے صوبے سنکیانگ سے اپنے والدین کے ساتھ نقل مکانی کر کے برف
پوش پہاڑوں کے درمیان ہفتوں کا سفر طے کرتے ہوئے پیدل گلگت بلتستان آئی
تھیں۔اس وقت ان کی عمر تو محض چند برس تھی لیکن سفر اتنا دشوارگزار اور تھکا دینے والا تھا کہ آج بھی اس کی یادیں انسہ بیگم کے ذہن میں تازہ ہیں۔
’جب ہم یہاں آئے تو کئی ہفتے پہاڑوں میں پیدل چلتے رہے۔ ہم نے اپنا سامان خچروں پر لاد رکھا تھا۔ اس وقت پاکستان اور چین کے درمیان سڑک نہیں تھی۔ برف اتنی تھی کہ گھنٹوں کا سفر دنوں میں طے کرنا پڑا۔ راستے میں مجھے اور میرے خاندان کو بہت تکالیف اٹھانا پڑی تھی۔‘
انسہ خان اور ان کی طرح لگ بھگ سو خاندان چین میں کمیونزم رائج ہونے کے بعد اسی طرح کا سفر طے کرکے گلگت بلتستان میں جا آباد ہوئے۔
نصف صدی میں انسہ نے اسی سر زمین پر زندگی کی دھوپ چھاؤں دیکھی، ماں باپ کھوئے، دلھن بنیں بیوہ ہوئیں اور اب اپنے نواسے نواسیوں کے گھر آباد کرنے کا سوچ رہی ہیں۔
لیکن وہ پھر بھی ذہن سے مہاجر ہونے کا خیال نکال نہیں سکیں۔ دس برس پہلے ان کی زمین کا جھگڑا ہوا جس کی شکایت انھوں نے آج تک کسی سے نہیں کی۔
’ان لوگوں نے کہا کہ آپ اپنی زمین بیچ دو۔ ہم آپ کو پیسے دے دیں گے۔ انھوں نے زمین تو لے لی لیکن دس سال ہوگئے کہ پیسے نہیں دیے۔ وہ پاکستان کے باشندے ہیں اور میں مہاجر ہوں۔ نہ میں عدالت گئی نہ ہی پولیس کے پاس۔ میں سوچتی ہوں ایک ہی بیٹا ہے، میرا میں کسی سے بھی یہاں کیسے دشمن داری کروں۔‘
اویغور مسلمانوں کا آبائی وطن تو سنکیانگ ہے اور وہ مذہبی رجحان رکھنے والے لوگ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں کمیونزم نظام حکومت قائم ہونے کے بعد بے وطن ہوئے اور افغانستان، ترکی، وسطی ایشیا اور پاکستان میں آباد ہوئے۔
پاکستان نے انھیں رہنے کی جگہ بھی دی اور شناخت بھی لیکن تمدنی لحاظ سے آج بھی اویغور خود کوگلگت بلستان کی دوسری قوموں سے مختلف سمجھتے ہیں۔
عبدالرحمان بخاری اویغوروں کی تنظیم چائینیز اوورسیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ وہ کہتے ہیں :’ہمارے پاس پاکستان کے شناختی کارڈ ہیں اور ہم خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں۔ ہمیں وہ سہولتیں بھی دی گئی ہیں جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں۔ اس کے باوجود مقامی لوگوں کے لیے ہم آج بھی کاشغری ہیں۔ کبھی ان کے رویے ہمارے لیے بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔‘
اویغور ترکستانی زبان بولتے ہیں۔ کھانا پینا ہو یا پھر اٹھنا بیٹھنا بات ان کی ہر چیز گلگت بلتستان کے مقامی لوگوں سے مختلف ہے۔ لیکن کچھ اویغور ایسے بھی ہیں جو اپنی شناخت برقرار رکھنے کے باوجود یہاں رچ بس چکے ہیں۔
عبدالعزیز بھی ان میں سے ایک ہیں۔ گلگت کے ایئرپورٹ روڈ پر ان کی کاشغری گدیوں اور رضائیوں کی دکان ہے۔
وہ اپنے سامنے بنے لکڑی کے ایک چوکھٹے میں لگے چھوٹے چھوٹے گیندوں کو انتہائی سرعت سے گھما رہے تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ چینی کیلکیولیٹر ہے اور عبدالعزیر ابھی بھی دکان کا حساب کتاب اسی پر کرتے ہیں۔
عبدالعزیز کی چوتھی نسل اس وقت پاکستان میں پروان چڑھ رہی ہے۔ وہ اردو تو کیا ٹوٹی پھوٹی پنجابی بھی بول لیتے ہیں۔ لیکن اپنی مادری زبان سے ابھی بھی رشتہ اتنا ہی مضبوط ہے جتنا کہ نصف صدی پہلے تھا۔
’میں نے اپنے پوتے پوتیوں کو یہ زبان سکھانے پر بہت محنت کی ہے۔ ہم اتنی تھوڑی تعداد میں ہیں کہ اب ہماری زبان بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ بچے بول تو لیتے ہیں لیکن لکھنا تو بالکل نہیں جانتے۔‘
تمدن خطرے میں ہونے اور کچھ مشکلات کے باوجود عبدالعزیز واپس جانے کو تیار نہیں۔
’مجھے کبھی بھی یہاں اجبنیت محسوس نہیں ہوئی۔ ہم سینکیانگ کو چھوڑ چکے ہیں اب یہی ہمارا وطن ہے۔‘
چین کے صوبے سکینانگ میں ابھی بھی مسجدوں میں نماز پڑھنے داڑھی بڑھانے اور روزے رکھنے پر پابندی ہے۔ اور اس وقت چین کی حکومت پاکستان میں بسنے والے اویغوروں کو واپس بلانے اور وہاں رہائش اور کاروبار کے لیے کئی مراعات دینے کو بھی تیار ہے لیکن یہ لوگ واپس جانا نہیں چاہتے۔
عبدالرحمان بخاری کہتے ہیں: ’ہم چین کے دروازے پر بیٹھے ہیں یہ بہت حساس علاقہ ہے۔ چین میں جب بھی انتہاپسندی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ہم پر دباؤ آتا ہے۔ وزیرستان کے علاقوں میں ایسٹ ترکمانستان موومنٹ متحرک رہی ہے اور اس تنظیم سے چین کے اویغوروں کے قریبی تعلقات بھی رہے ہیں۔ اس لیے چین کو ہر وقت یہ خدشہ رہتا ہے کہ مسلح افراد سینکیانگ میں اپنی پرتشدد کاروائیوں کے لیے یہ راستہ استعمال کرسکتے ہیں۔اور ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ چین کی حکومت ہم سے دوستانہ تعلق رکھ کر بھی ہم پر نظر رکھنا اور ہماری نگرانی کرنا چاہتی ہے۔‘
عبدالرحمان بخاری کے مطابق مسئلہ مذہبی اور اظہار کی آزادی کا ہے۔ اور ہم خود کو مسلم ثقافت سے منسلک رکھنا چاہتے ہیں جو چین میں رہتے ہوئے ممکن نہیں۔
0 comments:
Post a Comment