Friday, 3 July 2015

’فوجی جنھیں تاریخ نے یتیم کر دیا‘

یورپ جنگ عظیم اول میں اپنی طرف سے لڑنے اور جانیں قربان کرنے والے نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے فوجیوں کو تو یاد بھی رکھتا ہے بلکہ ہر برس ان کے لیے تقاریب بھی منعقد کرتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اسی جنگ میں سلطنتِ برطانیہ کے لیے جانیں دینے والے 74 ہزار ہندوستانی سپاہیوں کو شاذ و نادر ہی یاد کیا جاتا ہے؟
تاج برطانیہ نے اِن سپاہیوں کو ہندوستان کی آزادی کے جھوٹے وعدے کر کے یورپ کے انتہائی سرد موسم کے میدانِ جنگ میں جھونکا تھا اور جنگ کے اختتام پر یہ تمام وعدے فراموش کر دیے گئے۔
پہلی جنگِ عظیم کو اُس وقت صرف ’عظیم جنگ‘ کہا جاتا تھا جو تمام جنگوں کے خاتمے کے لیے لڑی جا رہی تھی۔ لیکن ستم ظریفی یہ تھی کہ اِس کو جنگ عظیم اول کا نام اس لیے ملا کہ صرف 20 برس بعد ہی یورپ میں اِس سے کہیں زیادہ ہلاکت خیز ایک اور جنگ چھڑ گئی تھی۔
جنگ عظیم اول میں لڑنے والے سپاہیوں کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ بہت جلد ایک اور جنگ بھی چھڑ جانی ہے۔
null 
جنگ عظیم اول نے یورپ کے لاکھوں خوبرو جوانوں کو وقت سے پہلے ہی قبر کی راہ دکھا دی تھی۔ نہ جانے اِن میں کتنے باصلاحیت فنکار، شاعر ، کھلاڑی اور غیرمعمولی ذہین لوگ بھی ہوں گے جو یورپ کے روایتی اور تاریخی باہمی قضیوں کی نذر ہوگئے۔
لیکن 13 لاکھ ایسے بھی تھے جو ہزارہا میل دور سے برطانیہ اور یورپ کے دفاع میں لڑنے ضرور آئے تھے لیکن جن کا یورپ کی اِن باہمی دشمنیوں اور نفرتوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اگر یورپ کا ساتھ دینے والے آسٹریلوی اور جنوبی افریقی سپاہیوں پر نظمیں اور کتابیں لکھی گئیں اور ’گیلی پولی‘ جیسی شاہکار فلمیں بنیں تو ہندوستان سے گئے اِن بھولے بسرے سپاہیوں کا اب بہت کم ذکر ہوتا ہے۔
یورپ کے لیے یورپ میں جان دینے والے اِن 74187 سپاہیوں کا تذکرہ جنگ عظیم اول پر یورپی کہانیوں میں یوں تو ہوتا ہی نہیں ہے یا کہیں کسی کونے کھدرے میں ضمنی طور پر۔
null 
 
یورپ، بحیرۂ روم کے ملکوں، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی اور مشرقی افریقہ کے کئی محاذوں پر ہندوستانی دستوں کے بریگیڈ اور ڈویژن تعینات تھے اور اِس جنگ میں خندقوں کی ہولناک دو بدو لڑائیوں کا اولین شکار بننے والوں میں بھی ہندوستانی سپاہی شامل تھے۔
سنہ 1914 میں پیرس کے محاذ پر یہ ہندوستانی جوان ہی تھے جنھوں نے جرمن دستوں کی پیش قدمی روکی تھی جس کے فوری بعد بھرپور جنگ چھڑ گئی تھی حالانکہ اُس وقت برطانوی حکام خود اپنی فوج کی بھرتی اور تربیت کے ہی مرحلے میں تھے۔
بے مثال بہادری سے لڑتے ہوئے سینکڑوں ہندوستانی سپاہی نیووشپیلے کی بے مقصد لڑائی میں مارے گئے تھے جبکہ ونسٹن چرچل کی احمقانہ پالیسی کے باعث چھڑنے والی گیلی پولی کی جنگ میں ایک ہزار سے زیادہ ہندوستانی سپاہی ہلاک ہوئے تھے۔
 null
میسو پوٹیمیا، جو موجودہ عراق اور آس پاس کا علاقہ ہے، وہاں جرمنی کے اتحادی عثمانی دستوں کے مقابل لڑنے والوں میں سات لاکھ ہندوستانی فوجی بھی شامل تھے۔ اِن میں ہزاروں مسلمان بھی تھے جنہوں نے تاج برطانیہ کے دفاع میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے۔
ان فوجیوں میں سب سے تکلیف دہ تجربات اُن کے تھے جو یورپ کے محاذوں میں خندقوں میں لڑ رہے تھے۔ فرانس اور بیلجیئم کے محاذوں پر لڑنے والے ہندوستانی سپاہیوں نے اپنے دور دراز گاؤں اور دیہات میں اپنے پیاروں کو جو خط بھیجے، اُن کے لفظ لفظ سے سماجی تنہائی اور المیے پھوٹتے محسوس ہوتے ہیں۔
ایک خط کے الفاظ ہیں کہ ’شیل یہاں مون سون کی بارش کی طرح برس رہے ہیں‘ جبکہ ایک اور خط کی تحریر ہے کہ ’میدانوں میں لاشیں ایسے بکھری پڑی ہیں جیسے مکئی کی کٹی ہوئی فصل کا ڈھیر۔‘
 null
یہ تمام لوگ یقیناً ہیرو تھے جو اجنبی میدانوں میں ایک ایسے دشمن سے لڑ رہے تھے جس کے بارے میں انھیں کچھ پتہ نہیں تھا۔ وہ ایسے سخت اور سرد موسم میں دھکیل دیے گئے تھے جس کے نہ تو وہ عادی تھے اور نہ ہی جس کے لیے تیار۔ یہ لوگ صبح و شام کسی دوسرے کے جھوٹے وقار کے لیے جانیں قربان کر رہے تھے۔
اور اس سب باوجود جنگ کے اختتام پر فراموش کر دیا جانا ان لوگوں کا نصیب بنا۔ سلطنت برطانیہ جس کے لیے اِن لوگوں نے اپنی جانوں کی بازی لگائی، اُس نے انھیں فراموش کر دیا اور جہاں سے یہ لوگ آئے تھے، یعنی ان کا اپنا وطن، اُس نے بھی اِنھیں نظرانداز کر دیا۔
شاید ایک وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ خود اپنی مادرِ وطن کے لیے نہیں لڑ رہے تھے۔ اِن میں سے کسی کو بھی زبردستی بھرتی نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ پیشہ ور سپاہی تھے۔ یہ اُسی تاج برطانیہ کے لیے لڑ رہے تھے جو خود اُن کے اپنے ہم وطنوں کا استحصال کر رہا تھا۔
برطانیہ نے اس جنگ کے لیے ہندوستان سے فوجی اور بڑے پیمانے پر وسائل حاصل کیے۔ اِن میں خوراک کی بڑی مقدار، نقدی اور اسلحہ گولہ بارود وغیرہ شامل تھا۔ یہ سب کچھ یا تو ہندوستانیوں پر ٹیکس لگا کر لیا گیا یا پھر برائے نام خودمختار ریاستوں اور رجواڑوں سے۔
 null
اور اِس کی عوض برطانوی حکومت نے بہت ہی غیرسنجیدگی سے ہندوستان کو جنگ کے خاتمے پر خودمختاری دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اگر برطانوی حکومت اپنے اِس عہد کی پاسداری کرتی تو شاید جنگ عظیم اول میں اُس کی طرف سے لڑنے والے سپاہیوں کی قربانیاں آزادی کے لیے کچھ کردار کے طور پر قابلِ قبول ہوتیں۔
لیکن برطانیہ نے اپنے وعدے کا پاس نہ رکھا۔ گاندھی جی جنوبی افریقہ سے ہمیشہ کے لیے اپنے وطن ہندوستان واپس آگئے تھے۔ انھوں نے جنوبی افریقہ میں بھی جنگِ بوئر میں برطانیہ کی حمایت کی تھی اور جنگ عظیم اول میں بھی وہ برطانیہ کے حمایتی تھے۔
نوبیل انعام پانے والے عظیم شاعر ٹیگور قوم پرستی کو جلی کٹی سناتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ’ہم بھوکے ننگے، چیتھڑوں میں لپٹے، پھٹے پرانے کپڑے پہننے والے مشرقی لوگ پوری بنی نوع انسان کے لیے آزادی جیتیں گے۔‘
اور جنگ کے دوران یہ بھی لکھا کہ ’ہماری زبان میں تو قوم کے لیے کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔‘
 null
اِس جنگ کے دوران ہندوستان انفلوئنزا کی ایک جان لیوا وبا کا شکار تھا۔ اس کے باوجود جنگ لڑنے کے لیے پورے ملک پر بھاری ٹیکس لگائے گئے جس سے افرطِ زر بھی بڑھ گئی تھی۔ ساتھ ساتھ جنگ کے باعث تجارت کو بھی شدید دھکا لگا اور بہت زیادہ معاشی نقصان ہوا۔ لیکن قوم پرستوں نے برطانوی وعدوں سے یہ سمجھا کہ کہ جنگ کے اختتام پر ہندوستان کو بھی دولت مشترکہ کے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا جیسے سفید فام ملکوں جیسی خودمختاری مل جائے گی۔
لیکن یہاں معاملہ مختلف تھا۔
جنگ میں فتح کے بعد خودمختاری کے بجائے ہندوستانیوں کو اُن کی قربانیوں کا صلہ رولٹ ایکٹ کی صورت میں دیا گیا جس میں وائسرائے کی انتظامیہ کو تاجِ برطانیہ کے خلاف سرگرمیوں کو بغاوت کے نام پر روکنے کے وسیع اختیارات دیے گئے۔ سینسرشپ لگا دی گئی، کسی کو بھی بغاوت کے شبے میں بغیر وارنٹ اور بغیر مقدمہ قید کرنے کا قانون بنا اور سیاسی مخالفین کو بغیر کسی الزام قید کر دیا گیا۔
ان کالے قوانین کے خلاف عوامی احتجاج کو بے رحمی سے کچلا گیا اور اِس کی بدترین مثال جلیانوالہ باغ کا قتلِ عام تھا جہاں اپریل 1919 میں جنرل ریجینالڈ ڈائر کے حکم پر فوجیوں نے نہتے عوام پر فائر کھول دیا اور ڈیڑھ ہزار لوگوں کو مار ڈالا۔
برطانیہ جنرل ڈائر کو ہیرو قرار دیتا ہے۔ اُس کی خدمات پر اُسے ملنے والا انعام و اکرام دراصل برطانوی سامراج اور اُس کی ہندوستانی رعایا کے درمیان رشتوں کے خاتمے کا عنوان بن گیا۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے ’برطانوی رعایا کی بے بسی اور بے چارگی کے اظہار کے لیے‘ خود کو ملنے والا نائٹ کا اعزاز واپس کر دیا۔ بقول اُن کے انھیں ’ذلت کے تناظر میں ملنے والی عزت و توقیر قبول نہیں تھی۔‘
 null
جس جنگ میں ہندوستان نے اتنا کچھ قربان کیا، اُس کے اختتام پر برطانوی خیانت سے قوم پرستوں نے صاف محسوس کیا کہ اِس جنگ میں شریک ہونے والے سپاہیوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ وہ صرف اپنے غیرملکی آقاؤں کی حدمت کے لیے لڑنے گئے تھے۔ اپنے سامراجی آقاؤں کی خاطر جنگ میں جان کھونا یا معذور ہو جانا ایک پیشہ ورانہ خطرہ تو ہو سکتا تھا، یہ چیز مادرِ وطن کی خدمت کے دائرے میں نہیں آ سکتی۔
قوم پرستوں نے بھی اسی طرح سوچا اور اپنے ہم وطنوں کی قربانیوں کو بھول گئے۔ اسی لیے جب سنہ 1964 میں جنگِ عظیم اول کی گولڈن جوبلی ہوئی تو یورپ میں بھی اِن ہندوستانی سپاہیوں کا شاذونادر ہی کوئی ذکر ہوا اور انڈیا میں تو وہ بھی نہیں تھا۔
یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ برطانوی راج سے آزاد ہونے والے ہندوستان میں اِسی راج کے لیے جانیں قربان کرنے والے سپاہی شرم کا باعث تھے اور اسی لیے انھیں کسی نے یاد نہیں رکھا۔
لیکن برطانوی حکومت نے ضرور ان سپاہیوں کی یاد میں سنہ 1931 میں دلی میں انڈیا گیٹ کی یادگار بنائی تھی۔ آج یہ جگہ کافی مقبول ہے اور ہزاروں لوگ یہاں جاتے ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ دراصل پہلی جنگِ عظیم میں مرنے والے ہندوستانی سپاہیوں کی یادگار ہے۔
جنگوں کی کسی قومی یادگار کی غیرموجودگی میں بہت سے لوگوں کے لیے یہی ایک ایسا مقام جہاں حالیہ جنگوں میں مرنے والوں کو بھی یاد رکھا جاسکتا ہے۔ چین اور پاکستان کے ساتھ جنگ کی یاد میں یہاں کھڑے ہوکر سر جھکانے والے شاید ہی کسی شخص کے ذہن میں جنگِ عظیم اول کے اِن سپاہیوں کا خیال آتا ہو۔
لیکن اِس جنگ کی صد سالہ تقریبات سوچ کو نئی مہمیز دے رہی ہیں۔
یورپ اور مشرق وسطیٰ کے محاذوں سے ہندوستانیوں سپاہیوں کی اُس وقت کی بڑی غیرمعمولی تصاویر ملی ہیں اور انٹرنیٹ پر ان تصویروں سے اچ وست کے واقعات کو نئی زندگی ملی ہے۔
 null
ان تصویروں میں اِن خوبرو جوانوں کو کہیں اجنبی محاذوں پر جاتے، کہیں اپنے زخموں کی مرہم پٹی کرتے ہوئے دیکھ کر ناممکن ہے کہ آپ آبدیدہ نہ ہو جائیں۔ ایک تصویر میں تو پگڑی باندھے داڑھی والا ایک گھڑسوار ہندوستانی فوجی میسو پوٹیمیا میں ایک دہقان لڑکی کو اپنا راشن دے رہا ہے۔
بہت سے ہندوستانیوں کے لیے اب برطانوی راج مخالف جذبات پر تجسس غالب آ چکا ہے اور آہستہ آہستہ جنگِ عظیم اول کے ہندوستانی فوجیوں سے وابستہ انسانی پہلو پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔
ان سپاہیوں کے لکھے ہوئے بعض خطوط میں غیرمعمولی حقیقت پسندی بھی ملتی ہے اور بعض میں اپنے ہم وطنوں سے ایک بے مقصد جنگ کے لیے فوج میں شمولیت کی حماقت نہ کرنے کی درخواست بھی کی گئی ہے۔ کچھ خطوط میں ہندوستانی سپاہیوں کے لیے فرانسیسی خواتین کی گرمجوشی کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ لیکن اِس سب کے باوجود اِن سپاہیوں پر بہت کم کتابیں یا نظمیں لکھی گئی ہیں۔

0 comments:

Post a Comment