سماجی رابطوں کی ویب سائٹس خصوصاً فیس بک موجودہ عہد میں مفید
اطلاعات کے پھیلاﺅ، تفریح اور علم کے حصول کے لیے موثر ذریعہ بن چکی ہے،
مگر ہمارے معاشرے میں بیشتر افراد اسے لوگوں کو بدنام کرنے کے لیے بے بنیاد
خبروں کو پھیلانے،تصاویر اور خاکوں میں ردوبدل جیسے طریقوں کے ذریعے غلط
استعمال کررہے ہیں۔
چند سال قبل جب فیس بک صارفین کی تعداد
محدود تھی تو اسے تاریخی، کارآمد اور دلچسپ اطلاعات اور تصاویر کو شیئر
کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا مگر اب صورتحال مکمل طور پر بدل چکی ہے۔
فیس
بک صارفین کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور متعدد افراد کے
مختلف ناموں کے ساتھ ایک سے زیادہ اکاﺅنٹس ہیں، یہ فرضی فیس بک اکاﺅنٹس
اکثر منفی سرگرمیوں جیسے بلیک میلنگ اور پروپگینڈہ وغیرہ کے لیے استعمال
کیے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ماہرین کے خیال میں بیشتر نوجوانوں کے
لیے فرضی ناموں کا استعمال کشش رکھتا ہے جبکہ لڑکیوں کی فرضی تصاویر کے
ذریعے انہیں تیز اور بہت زیادہ توجہ ملتی ہے۔
فیس بک ہر ایک کے لیے
ہائیڈ پارک بن چکا ہے جہاں کوئی بھی اپنی پسند کی زبان استعمال کرسکتا ہے،
کئی بار کوئی صارف معروف شخصیات جن میں زیادہ تر سیاستدان ہوتے ہیں، کے
بارے میں نامناسب الفاظ استعمال کرتا ہے، یہاں تصاویر اپ لوڈ کرنے، تحریر
اور کمنٹس پوسٹ کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔
سیاسی ورکرز فیس بک پر بہت
زیادہ متحرک نظر آتے ہیں جو اس سائٹ کو عام طور پر پروپگینڈہ کے لیے
استعمال کرتے ہیں، اس صورتحال کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ لوگوں کی
جانب سے سیاسی اور مذہبی رہنماﺅں کی بے عزتی کے لیے مضحکہ خیز فرضی تصاویر
کو اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔
ان رہنماﺅں کی تصاویر کو لڑکیوں کے ساتھ
مختلف پوز میں ایڈٹ کیا جاتا ہے اور پھر ان کی شخصیت پر دھبہ لگانے کے لیے
انہیں عوام کے لیے اپ لوڈ کردیا جاتا ہے۔
سیاسی ورکرز خاص طور پر
خواتین کی تصاویر کو فوٹو شاپ میں جسمانی ساخت کو تبدیل کرکے عجیب کیپشنز
کے ساتھ پوسٹ کی جاتی ہیں، فیس بک کے بیشتر صارفین اب اس پورے عمل سے کافی
واقف ہوچکے ہیں اور وہ جاننے لگے ہین کہ لوگ اس سائٹ کو پروپگینڈہ کے
ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔
فیس بک کے صارفین تعلیم یافتہ
افراد ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی طاقت
رکھتے ہیں، مگر وہ منفی سرگرمیوں میں بہت زیادہ مصروف رہتے ہیں اور نہ صرف
اس طاقتور پلیٹ فارم کا غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ معاشرے میں بھی کوئی
اچھائی نہیں پھیلا رہے۔
طاقتور سوشل میڈیا کا غلط استعمال انتشار کا سبب بنتا ہے کیونکہ فرضی اکاﺅنٹس کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔
متعدد
معروف شخصیات، حکومتی عہدیداران، سیاستدان اور یہاں تک کہ ججز نے فیس بک
اکاﺅنٹس ہونے کی تردید کی ہے مگر ان کے نام کی آئی ڈیز سماجی رابطے کی اس
ویب سائٹ پر موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ قابل اعتراض مواد سامنے آنے کے بعد
بیشتر شخصیات کو اپنی صفائی پیش کرنا پڑ جاتی ہے۔
دیگر افراد کی ٹائم
لائن پر تصاویر ٹیگ کرنا ایک اور سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ کئی بار کوئی
صارف قابل نفرت فوٹوز اور مواد دیگر شخص کی مرضی کے بغیر ٹیگ کردیتا ہے۔
غیرمصدقہ
اور غیر مستند قرآنی آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو
شیئر کرنا بہت عام ہے اور لوگ انہیں ڈاﺅن لوڈ کرکے ان کے پرنٹ نکال کر
استعمال بھی کرتے ہیں مگر کوئی بھی اس چیز کی زحمت نہیں کرتا ہے کہ اس کی
تصدیق کسی مذہبی عالم سے کرالے۔
ایک سرکاری کالج کی طالبہ ماہ نور
علی کا کہنا ہے" مجھے نہ صرف فیس بک بلکہ اخبارات اور ٹیلیویژن پر تشدد سے
متاثرہ افراد کی خونریز تصاویر دیکھنے سے نفرت ہے،میڈیا کو اس طرح کے مواد
کو دکھانے پر پابندی لگادینی چاہئے، جو معاشرے کو دہشت زدہ کردیتا ہے"۔
اسی
طرح اسلامیہ کالج پشاور کے طالبعلم محمد اظہار علی شاہ بھی کہتے ہیں لڑکوں
کی جانب سے لڑکیوں کی فرضی تصاویر کا استعمال عام معمول بن چکا ہے، جو کسی
مہذب اور باشعور شخص کو زیب نہیں دیتا۔
اس کا اصرار ہے کہ طالبعلموں
کو اس قابل قدر پلیٹ فارم کو مذموم مقاصد کی بجائے ایسی عام معلومات،
تدریسی اور تاریخی مواد کو شیئر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہئے۔
محمد
اظہار نے سوشل میڈیا پر غیراخلاقی مواد کو ٹیگ کرنے کے عمل کی بھی مخالفت
کرتے ہوئے کہا کہ بیشتر فیس بک صارفین نوجوان طالبعلم ہیں، جنھیں اسے لوگوں
کو بہکانے کے لےے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔
اس کا کہنا تھا"ہر صارف
کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سوشل میڈیا کو خاندان بھی استعمال کرتے
ہیں اور غیرمعیاری مواد کو اپ لوڈ کرنا غیراخلاقی کام ہے، جس پر حکومت کے
متعلقہ اداروں کو نظر رکھنی چاہئے۔
ایک آئی ٹی ماہر نے بتایا کہ بے کار مواد کے استعمال پر پابندی لگائی جانی چاہئے جو عام صارف کو بہکانے کا سبب بنتا ہے۔
اس
کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل کیمرہ اور موبائل فونز کے بہت زیادہ استعمال نے
لوگوں کی زندگیوں کو غیرضروری ویڈیوز اور تصاویر کی بدولت قابل رحم بنادیا
ہے۔
اس نے کہا"کسی کو بھی عام صورتحال میں دیگر افراد کی پرائیویسی
میں مداخلت نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ کسی شخص کی زندگی کے کسی غیرمعمولی
لمحے کی تصویر کو سوشل میڈیا تک پہنچنے میں کوئی وقت نہیں لگتا"۔
اس
ماہر کا مزید کہنا تھا کہ فیس بک کے بیشتر صارفین کے انٹرنیٹ پر بہت زیادہ
دوست ہوتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی ضرورت کے وقت کام نہیں آتا" وہ صرف
سالگراﺅںپر پیغامات بھیجتے ہیں اور نئے مواد اپ لوڈ کرنے پر کمنٹس ہی کرتے
ہیں"۔
آئی ٹی ماہر کے مطابق نوجوانوں نے اپنی زندگیاں فیس بک اور
ٹوئیٹر کے لیے صرف کردی ہیں اور رات کو سونے کی بجائے اس طرح کی سرگرمیوں
میں ہی مصروف رہتے ہیں۔
اس نے کہا کہ طالبعلموں کے اندر کلاس رومز
میں ویڈیو بنانے اور اسے اپ لوڈ کرنے کی عادت والدین اور اساتذہ کے لیے
حیرت کا باعث بنتی ہے، ہر تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کو موبائل فونز اور
ڈیجیٹیل کیمروں کے غلط استعمال پر نظر رکھنی چاہئے۔
ماہر کا کہنا تھا
کہ فرضی آئی ڈی بنانے والے صارفین کے مقامات کو ڈھونڈا جاسکتا ہے مگر اس
کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سائبر کرائمز یونٹس کو بھرپور
کوشش کرنا ہوگی۔
اس نے آئی ڈیز کی حقیقت پر نظر رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ
ایک حساس معاملہ ہے جس پر نظر نہ رکھی جائے تو یہ لوگوں کے قتل کا باعث بھی
سکتا ہے۔
آئی ٹی ماہر کے مطابق" یہاں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ سماج
دشمن عناصر سوشل میڈیا کو اپنے قابل نفرت مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں،
وہ لڑکیوں کو چیٹ کے ذریعے ورغلاتے ہیں، ان کے فون نمبرز لے کر اپنے ذہن
میں موجود بیمار ذہنیت کے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں"۔
ایک
اسپورٹس صحافی عظمت اللہ خان نے اس بارے میں رائے دیتے ہوئے کہا کہ فیس بک
علم کے خزانے کی طرح ہے مگر نوجوانوں کی جانب سے اس کا صحیح استعمال نہیں
کیا جارہا۔ انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر
رکھیں اور انہیں سیکھائے کہ کس طرح سوشل میڈیا کو علم کے حصول کے لیے
استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ایک اور صحافی انیلہ شاہین نے فیس بک کو ہر
ایک تک اطلاعات کی رسائی کے لیے مفید ذریعے قرار دیا، جہاں ہر اس فرد کو
اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کا موقع ملتا ہے جو ٹیلیویژن اور اخبارات
میں ایسا نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مفت اور موثر پلیٹ فارم
ہے" پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی جانب سے توہین آمیز اور بدنام کرنے والے
بیانات کو جگہ نہیں ملتی مگر فیس بک پر ہر کوئی اپنے جذبات کے اظہار کے لیے
آسانی سے سخت الفاظ کو پوسٹ کردیتا ہے"۔
انیلہ شاہین نے کہا کہ کئی
بار تعلیم یافتہ افراد بھی فیس بک کو انتہائی غیرمعیاری وماد کو شیئر کرنے
کے لیے استعمال کرتے ہیں، انہوں نے تجویز دی کہ قابل اعتراض مواد کو اپ لوڈ
کرنے پر کچھ پابندیاں عائد ہونی چاہئے کیونکہ اس سے معاشرے میں معاشرتی
مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
ایک اور آئی ماہر سگتین علی کا کہنا تھا" میں سوشل میڈیا کا استعمال اکثر گیمز کھیلنے کے لیے کرتا ہوں"۔
اس
نے بتایا کہ جو لوگ اس سائٹ کے استعمال کو روزانہ کی بنیاد پراس طرح
استعمال کرتے ہیں جیسے انہیں اس پر کام کرنے کی ہدایت دی گئی ہو اور وہ
پیسے دیئے جارہے ہوں۔
ایف آئی اے کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر عمران شاہد نے
ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کہ سائبر کرائمز یونٹ اس طرح کے پلیٹ فارمز
کے استعمال پر نظر رکھنے کے لیے کام کررہا ہے اور عوامی شکایات پر اقدام
بھی کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا"ایف آئی اے کے سائبر کرائم یونٹ کے
حوالے سے بیشتر افراد کو زیادہ معلومات حاصل نہیں، جو کہ انٹرنیٹ اور فیس
بک پر موثر طریقے سے غیرمطلوب اور تضحیک آمیز مواد کی روک تھام کے لیے کام
کررہا ہے، یہ یونٹ کسی بھی آئی ڈی کے حامل فرد کو تلاش کرنے کی صلاحیت
رکھتا ہے"۔
عمران شاہد نے بتایا کہ شعور نہ ہونے کے باعث لوگ اپنی
شکایات پولیس کے پاس درج کراتے ہیں مگر یہ پولیس کی ذمہ داری نہیں، کیونکہ
صرف ایف آئی اے کے پاس ہی غیرضروری مواد پر نظراور بلاک کرنے کی سہولت
موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن
اتھارٹی سمیت متعلقہ اداروں یہاں تک کہ یاہو اور گوگل تک سے بھی مدد لی
جاتی ہے