Welcome to Inqilab Patel's Blog

Students' Resource centre, developed to facilitate students in their studies.

O/A Level Computer Studies with Inqilab Patel

A Highly experienced, well educated and self motivated computer teacher.

Ruknuddin Patel's Web portal

In touch with tomorrow

Inqilab Patel's Mag

Inqilab Patel's Magazine is a Students Resource Centre. It is developed to facilitate students of IT, O / A Level and Business Administration in their studies and to make them literate on current Global Political Issues.

RIC: Ruknuddin Institute of Computer

RIC: Ruknuddin Insitute of Computer (Management, IT) is established in April 15, 1995 by Inqilab Ruknuddin Patel. It is organising Skill Development Programmes (SDP) in the fields of Information Technology and Business Administration.

Sunday, 31 August 2014

پاکستان میں فیس بک کے غلط استعمال کی شرح میں خطرناک اضافہ

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس خصوصاً فیس بک موجودہ عہد میں مفید اطلاعات کے پھیلاﺅ، تفریح اور علم کے حصول کے لیے موثر ذریعہ بن چکی ہے، مگر ہمارے معاشرے میں بیشتر افراد اسے لوگوں کو بدنام کرنے کے لیے بے بنیاد خبروں کو پھیلانے،تصاویر اور خاکوں میں ردوبدل جیسے طریقوں کے ذریعے غلط استعمال کررہے ہیں۔
چند سال قبل جب فیس بک صارفین کی تعداد محدود تھی تو اسے تاریخی، کارآمد اور دلچسپ اطلاعات اور تصاویر کو شیئر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا مگر اب صورتحال مکمل طور پر بدل چکی ہے۔
فیس بک صارفین کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور متعدد افراد کے مختلف ناموں کے ساتھ ایک سے زیادہ اکاﺅنٹس ہیں، یہ فرضی فیس بک اکاﺅنٹس اکثر منفی سرگرمیوں جیسے بلیک میلنگ اور پروپگینڈہ وغیرہ کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ماہرین کے خیال میں بیشتر نوجوانوں کے لیے فرضی ناموں کا استعمال کشش رکھتا ہے جبکہ لڑکیوں کی فرضی تصاویر کے ذریعے انہیں تیز اور بہت زیادہ توجہ ملتی ہے۔
فیس بک ہر ایک کے لیے ہائیڈ پارک بن چکا ہے جہاں کوئی بھی اپنی پسند کی زبان استعمال کرسکتا ہے، کئی بار کوئی صارف معروف شخصیات جن میں زیادہ تر سیاستدان ہوتے ہیں، کے بارے میں نامناسب الفاظ استعمال کرتا ہے، یہاں تصاویر اپ لوڈ کرنے، تحریر اور کمنٹس پوسٹ کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔
سیاسی ورکرز فیس بک پر بہت زیادہ متحرک نظر آتے ہیں جو اس سائٹ کو عام طور پر پروپگینڈہ کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس صورتحال کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ لوگوں کی جانب سے سیاسی اور مذہبی رہنماﺅں کی بے عزتی کے لیے مضحکہ خیز فرضی تصاویر کو اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔
ان رہنماﺅں کی تصاویر کو لڑکیوں کے ساتھ مختلف پوز میں ایڈٹ کیا جاتا ہے اور پھر ان کی شخصیت پر دھبہ لگانے کے لیے انہیں عوام کے لیے اپ لوڈ کردیا جاتا ہے۔
سیاسی ورکرز خاص طور پر خواتین کی تصاویر کو فوٹو شاپ میں جسمانی ساخت کو تبدیل کرکے عجیب کیپشنز کے ساتھ پوسٹ کی جاتی ہیں، فیس بک کے بیشتر صارفین اب اس پورے عمل سے کافی واقف ہوچکے ہیں اور وہ جاننے لگے ہین کہ لوگ اس سائٹ کو پروپگینڈہ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔
فیس بک کے صارفین تعلیم یافتہ افراد ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں، مگر وہ منفی سرگرمیوں میں بہت زیادہ مصروف رہتے ہیں اور نہ صرف اس طاقتور پلیٹ فارم کا غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ معاشرے میں بھی کوئی اچھائی نہیں پھیلا رہے۔
طاقتور سوشل میڈیا کا غلط استعمال انتشار کا سبب بنتا ہے کیونکہ فرضی اکاﺅنٹس کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔
متعدد معروف شخصیات، حکومتی عہدیداران، سیاستدان اور یہاں تک کہ ججز نے فیس بک اکاﺅنٹس ہونے کی تردید کی ہے مگر ان کے نام کی آئی ڈیز سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ پر موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ قابل اعتراض مواد سامنے آنے کے بعد بیشتر شخصیات کو اپنی صفائی پیش کرنا پڑ جاتی ہے۔
دیگر افراد کی ٹائم لائن پر تصاویر ٹیگ کرنا ایک اور سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ کئی بار کوئی صارف قابل نفرت فوٹوز اور مواد دیگر شخص کی مرضی کے بغیر ٹیگ کردیتا ہے۔
غیرمصدقہ اور غیر مستند قرآنی آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شیئر کرنا بہت عام ہے اور لوگ انہیں ڈاﺅن لوڈ کرکے ان کے پرنٹ نکال کر استعمال بھی کرتے ہیں مگر کوئی بھی اس چیز کی زحمت نہیں کرتا ہے کہ اس کی تصدیق کسی مذہبی عالم سے کرالے۔
ایک سرکاری کالج کی طالبہ ماہ نور علی کا کہنا ہے" مجھے نہ صرف فیس بک بلکہ اخبارات اور ٹیلیویژن پر تشدد سے متاثرہ افراد کی خونریز تصاویر دیکھنے سے نفرت ہے،میڈیا کو اس طرح کے مواد کو دکھانے پر پابندی لگادینی چاہئے، جو معاشرے کو دہشت زدہ کردیتا ہے"۔
اسی طرح اسلامیہ کالج پشاور کے طالبعلم محمد اظہار علی شاہ بھی کہتے ہیں لڑکوں کی جانب سے لڑکیوں کی فرضی تصاویر کا استعمال عام معمول بن چکا ہے، جو کسی مہذب اور باشعور شخص کو زیب نہیں دیتا۔
اس کا اصرار ہے کہ طالبعلموں کو اس قابل قدر پلیٹ فارم کو مذموم مقاصد کی بجائے ایسی عام معلومات، تدریسی اور تاریخی مواد کو شیئر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہئے۔
محمد اظہار نے سوشل میڈیا پر غیراخلاقی مواد کو ٹیگ کرنے کے عمل کی بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بیشتر فیس بک صارفین نوجوان طالبعلم ہیں، جنھیں اسے لوگوں کو بہکانے کے لےے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔
اس کا کہنا تھا"ہر صارف کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سوشل میڈیا کو خاندان بھی استعمال کرتے ہیں اور غیرمعیاری مواد کو اپ لوڈ کرنا غیراخلاقی کام ہے، جس پر حکومت کے متعلقہ اداروں کو نظر رکھنی چاہئے۔
ایک آئی ٹی ماہر نے بتایا کہ بے کار مواد کے استعمال پر پابندی لگائی جانی چاہئے جو عام صارف کو بہکانے کا سبب بنتا ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل کیمرہ اور موبائل فونز کے بہت زیادہ استعمال نے لوگوں کی زندگیوں کو غیرضروری ویڈیوز اور تصاویر کی بدولت قابل رحم بنادیا ہے۔
اس نے کہا"کسی کو بھی عام صورتحال میں دیگر افراد کی پرائیویسی میں مداخلت نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ کسی شخص کی زندگی کے کسی غیرمعمولی لمحے کی تصویر کو سوشل میڈیا تک پہنچنے میں کوئی وقت نہیں لگتا"۔
اس ماہر کا مزید کہنا تھا کہ فیس بک کے بیشتر صارفین کے انٹرنیٹ پر بہت زیادہ دوست ہوتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی ضرورت کے وقت کام نہیں آتا" وہ صرف سالگراﺅںپر پیغامات بھیجتے ہیں اور نئے مواد اپ لوڈ کرنے پر کمنٹس ہی کرتے ہیں"۔
آئی ٹی ماہر کے مطابق نوجوانوں نے اپنی زندگیاں فیس بک اور ٹوئیٹر کے لیے صرف کردی ہیں اور رات کو سونے کی بجائے اس طرح کی سرگرمیوں میں ہی مصروف رہتے ہیں۔
اس نے کہا کہ طالبعلموں کے اندر کلاس رومز میں ویڈیو بنانے اور اسے اپ لوڈ کرنے کی عادت والدین اور اساتذہ کے لیے حیرت کا باعث بنتی ہے، ہر تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کو موبائل فونز اور ڈیجیٹیل کیمروں کے غلط استعمال پر نظر رکھنی چاہئے۔
ماہر کا کہنا تھا کہ فرضی آئی ڈی بنانے والے صارفین کے مقامات کو ڈھونڈا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سائبر کرائمز یونٹس کو بھرپور کوشش کرنا ہوگی۔ اس نے آئی ڈیز کی حقیقت پر نظر رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے جس پر نظر نہ رکھی جائے تو یہ لوگوں کے قتل کا باعث بھی سکتا ہے۔
آئی ٹی ماہر کے مطابق" یہاں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ سماج دشمن عناصر سوشل میڈیا کو اپنے قابل نفرت مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہ لڑکیوں کو چیٹ کے ذریعے ورغلاتے ہیں، ان کے فون نمبرز لے کر اپنے ذہن میں موجود بیمار ذہنیت کے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں"۔
ایک اسپورٹس صحافی عظمت اللہ خان نے اس بارے میں رائے دیتے ہوئے کہا کہ فیس بک علم کے خزانے کی طرح ہے مگر نوجوانوں کی جانب سے اس کا صحیح استعمال نہیں کیا جارہا۔ انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور انہیں سیکھائے کہ کس طرح سوشل میڈیا کو علم کے حصول کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ایک اور صحافی انیلہ شاہین نے فیس بک کو ہر ایک تک اطلاعات کی رسائی کے لیے مفید ذریعے قرار دیا، جہاں ہر اس فرد کو اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کا موقع ملتا ہے جو ٹیلیویژن اور اخبارات میں ایسا نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مفت اور موثر پلیٹ فارم ہے" پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی جانب سے توہین آمیز اور بدنام کرنے والے بیانات کو جگہ نہیں ملتی مگر فیس بک پر ہر کوئی اپنے جذبات کے اظہار کے لیے آسانی سے سخت الفاظ کو پوسٹ کردیتا ہے"۔
انیلہ شاہین نے کہا کہ کئی بار تعلیم یافتہ افراد بھی فیس بک کو انتہائی غیرمعیاری وماد کو شیئر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، انہوں نے تجویز دی کہ قابل اعتراض مواد کو اپ لوڈ کرنے پر کچھ پابندیاں عائد ہونی چاہئے کیونکہ اس سے معاشرے میں معاشرتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
ایک اور آئی ماہر سگتین علی کا کہنا تھا" میں سوشل میڈیا کا استعمال اکثر گیمز کھیلنے کے لیے کرتا ہوں"۔
اس نے بتایا کہ جو لوگ اس سائٹ کے استعمال کو روزانہ کی بنیاد پراس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے انہیں اس پر کام کرنے کی ہدایت دی گئی ہو اور وہ پیسے دیئے جارہے ہوں۔
ایف آئی اے کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر عمران شاہد نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کہ سائبر کرائمز یونٹ اس طرح کے پلیٹ فارمز کے استعمال پر نظر رکھنے کے لیے کام کررہا ہے اور عوامی شکایات پر اقدام بھی کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا"ایف آئی اے کے سائبر کرائم یونٹ کے حوالے سے بیشتر افراد کو زیادہ معلومات حاصل نہیں، جو کہ انٹرنیٹ اور فیس بک پر موثر طریقے سے غیرمطلوب اور تضحیک آمیز مواد کی روک تھام کے لیے کام کررہا ہے، یہ یونٹ کسی بھی آئی ڈی کے حامل فرد کو تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے"۔
عمران شاہد نے بتایا کہ شعور نہ ہونے کے باعث لوگ اپنی شکایات پولیس کے پاس درج کراتے ہیں مگر یہ پولیس کی ذمہ داری نہیں، کیونکہ صرف ایف آئی اے کے پاس ہی غیرضروری مواد پر نظراور بلاک کرنے کی سہولت موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی سمیت متعلقہ اداروں یہاں تک کہ یاہو اور گوگل تک سے بھی مدد لی جاتی ہے

Saturday, 30 August 2014

غزہ جنگ میں اسرائیل ناکام، حماس فاتح

اگرچہ یہ کوئی زبردست کامیابی نہیں مگر پھر بھی غزہ میں فلسطینی جشن منا رہے ہیں، منگل کی رات جب غزہ کی فضاﺅں پر پر آتش بازی کا مظاہرہ ہورہا تھا تو عالمی میڈیا کے بیشتر صحافی اپنے سروں کو ہلا رہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ 2100 سے زائد ہلاکتوں جن میں سترہ سو کے قریب عام شہری تھی، اور ایک لاکھ زخمیوں کے باوجود یہ اتنے خوش کیوں ہیں؟ کیا قتل عام روکنے پر؟ یا امن پر؟
نہیں، درحقیقت حماس برا، خوفناک ، دہشت گرد حماس جس سے "ہم" (مغرب، ٹونی بلیئر، اسرائیل، امریکہ اور تمام قابل احترام مرد و خواتین) سے بات نہیں کرتے، فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
اسرائیل کہتا تھا کہ اسے غیرمسلح ہونا ہوگا، مگر وہ غیر مسلح نہیں ہوئی، اسرائیل کا کہنا تھا کہ اسے جڑ سے مٹا دیں گے، مگر ان کا خاتمہ نظر نہیں آرہا۔
اسرائیل دعویٰ کرتا تھا کہ تمام سرنگوں کو تباہ کردیا جائے گا مگر ایسا بھی نہیں ہوا۔
تمام راکٹوں کو قبضے میں لینا ہوگا مگر ایسا بھی نہیں ہوسکا، تو 65 اسرائیلی فوجی مارے گئے مگر کس لیے؟ پس منظر میں خاموشی سے حماس (اور اسلامک جہاد) کی سیاسی قیادت جو اسرائیل، امریکہ اور مصر کو پسند نہیں، نے قاہرہ میں " امن" مذاکرات میں حصة لیا۔
اسرائیل میں کوئی جشن نہیں مانایا جارہا ہے، بنیامین نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت جو ایک بار پھر فتح کے دعوے کرتے ہوئے جنگ کے میدان میں کودی اور اس کا اختتام دوبارہ جنگ بندی کے ساتھ کیا، جیسا 2009 اور 2012 کی غزہ جنگوں کے دوران کیا۔
کہا جاسکتا ہے کہ میدان میں اسرائیلی فاتح رہے، کیونکہ تمام جانوں کا ضیاع، عمارتوں اور انفراسٹرکچر کی تباہی اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ فلسطینی جنگ کے میدان میں " غالب" رہے، مگرحکمت عملی کے میدان میں فلسطینی میدان مارنے میں کامیاب رہے۔
وہ ابھی بھی غزہ میں ہیں، حماس تاحال غزہ میں ہے اور فلسطینی اتھارٹی اور حماس کی اتحادی حکومت بھی حقیقت نظر آتی ہے۔
متعدد بار یہ کہا گیا کہ اسرائیلی ریاست کے بانیوں کو ایک مسئلے کا سامنا ہے، ایک سرزمین جسے فلسطین کہا جاتا ہے، وہ اس مسئلے کے سااتھ سرد مزاجی، سختی اور موثر طریقے سے نمٹتے رہے ہیں، مگر اب اب نا کا مسئلہ فلسطینی بن چک ہیں، ان کی سرزمین تو اسرائیل کے قبضے میں جاچکی ہے، جبکہ باقی ماندہ علاقوں کو اسرائیلی کالونیاں ہڑپ کرنے والی ہیں، مگر فلسطینی اتنی آسانی سے ہار ماننے کے لیے تیار نہیں، اور انہیں بڑی تعداد میں قتل کرنا خاص طور پر عالمی ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے زیادہ بدنامی اور " یہودی مخالف" جذبات کا سبب بن رہا ہے۔
اسرائیلی ترجمان تو اپنے اقدامات کا موزانہ خونریز دوسری جنگ عظیم میں برطانوی فضائی حملوں سے کررہے ہیں، ان پروپگینڈہ حملوں کو 21 ویں صدی میں ہضم کرنا بہت مشکل ہے، مگر دنیا دیگر معاملات پر بھی اپنی ناخوشی کا اظہار کررہی ہے۔
مثال کے طور پر حماس کے ترجمان اسرائیل اور صہیونیت پرستی کی تباہی کے دعویٰ کرتے ہیں ان کی مبالغہ آرائی بھی اسرائیلی بہانوں کی طرح سمجھ سے بالاتر ہیں، ان کے بقول"درحقیقت دنیا نے جو عظیم ترین کامیابی دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ حماس نے اسرائیل کے خلاف کسی عرب فوج سے زیادہ حاصل کیا ہے "۔
درحقیقت حزب اللہ اٹھارہ سال کی گوریلا جنگ کے بعد پوری اسرائیلی فوج کو لبنان سے باہر نکالنے میں کامیاب رہی، جس میں دونوں اطراف کی اتنی ہلاکتیں ہوئیں جس کا حماس تصور بھی نہیں کرسکتی۔
ہم بہت جلدی حماس کے قاتل اسکواڈ کو بھول گئے، جس نے غزہ میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کم از کم اکیس " جاسوسوں" کو موت کی سزا سنائی۔
میں نے نوٹس کیا ہے کہ انہوں نے فلسطینی ہلاکتوں کی تفصیلی فہرست جاری نہیں کی ہے اور میں حیران ہوں کہ ایسا کیوں نہیں ہوا، کیا وہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلیوں سے بھی زیادہ غیرانسانی سلوک کرتے ہیں؟ ہاں یقیناً ایسا ہوتا ہے، اس ہفتے جب آئی ایس آئی ایس اپنی موت کی سزاﺅں سے دنیا کا منہ چڑھا رہی ہے، حماس نے دکھایا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔
حماس کے تین اہم فوجی لیڈرز اسرائیل کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد ہم اور کیا توقع کرسکتے تھے؟ مگر دلچسپ چیز یہ ہے کہ کسی عدالتی سماعت اور انسانی حقوق کا خیال رکھے بغیر اس " انصاف" پر ایک بھی فلسطینی احتجاج نظر نہیں آیا۔
ایسا ہی کوئی احتجاج 2008-09 میں سترہ "جاسوسوں" کی سزا پر بھی نہیں ہوا جنھیں آج ہم بھول چکے ہیں، جبکہ 2012 میں چھ " جاسوس" کے ساتھ ایسا ہوا۔
اور جب "فوجی" ہلاکتوں کی بات ہوتی ہے تو پانچ سو کے قریب حماس کے کارکن مارے گئے ہیں، جبکہ 2008-09 میں یہ تعداد دو سو تھی، مگر اس جنگ میں صرف چھ اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے تھے، جبکہ موجودہ جنگ میں یہ دس گنا زیادہ اسرائیلی مارے گئے ہیں، باالفاظ دیگر حماس اور میرے خیال میں اسلامک جہاد نے سیکھا ہے کہ کس طرح لڑا جاتا ہے۔
حزب اللہ مشرق وسطیی کی سب سے موثر گوریلا فوج ہے اور وہ بھی اس کا کا نوٹس لے رہی ہے، اور ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ غزہ سے برسائے جانے والے راکٹ اسرائیل بھر میں سینکڑوں میلوں تک پھیلے ہیں، "آئرن ڈوم" کے باوجود پہلے سدورت خطرے کی زد میں آیا، اور اب ہم نے دیکھا کہ بن گوریان ائرپورٹ سے پروازیں منسوخ کی گئیں۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں محمود عباس اس معاہدے پر مصریوں اور امریکیوں کے سامنے عاجزی سے شکرگزاری کا احساس کررہے ہیں، مگر نئی "مشترکہ" فلسطینی حکومت میں حماس محمود عباس کو بتانے والی ہے کہ وہ کتنی"حمایت" حاصل کرسکتے تھے۔
مصر کے محصور اخوان المسلمون سے دوری اور حماس کو سائیڈلائن کرکے اسرائیلیوں اور امریکیوں کے لیے قاہرہ امن معاہدے کو حماس نے تنازعے کے دوران فوری طور پر مسترد کردیا تھا، جس نے مصر کے صدر فیلڈ مارشل السیسی کو تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ حماس امن معاہدے کے لیے اہم عرب فریق ہیں۔
اور اس وقت حیرت انگیز امر یہ ہے کہ مصر لیبیا میں اسلام پسندوں پر بمباری کررہا ہے جبکہ امریکہ عراق کے بعد شام میں آئی ایس آئی ایس پر بمباری کی تیاراں کررہا ہے، مگر غزہ میں اسلام پسند جیتنے میں کامیاب رہے، مگر یقیناً یہ کامیابی ہمیشہ کے لیے نہیں۔

’پاکستان جبری گمشدگیوں پر عالمی کنونشن کی توثیق کرے‘

حقوقِ انسانی کی عالمی اور مقامی تنظیموں نے حکومتِ پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ملک سے جبری طور پر گمشدگیوں کے واقعات کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرے۔
30 اگست کو لاپتہ افراد کے عالمی دن کے موقع پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت فوری طور پر جبری گمشدگیوں سے تحفظ کے عالمی کنونشن کی توثیق کرے۔
حقوقِ انسانی کی پاکستانی تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ بلوچستان میں اس قسم کے واقعات میں کسی حد تک کمی آئی ہے لیکن اب صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ سندھ میں ایسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان معاملات میں خصوصاً ناقابلِ قبول بات یہ ہے کہ لاپتہ ہونے والے افراد سیاسی مخالفت اور کمیونسٹ سرگرمیوں کے حوالے سے جانے جاتے تھے اور ان افراد کے لواحقین قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان گمشدگیوں کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں
ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ متاثرین کی دادرسی کے فورم اور عدالتیں ایسے افراد کی جلد بازیابی ممکن بنانے میں ناکام رہی ہیں اور ان جبری گمشدگیوں کے ذمہ داران کو سزا دینے اور متاثرین کے مسائل کا ازالہ کرنے کے لیے قومی سطح پر جامع منصوبہ بنانے پر بھی زیادہ کام نہیں ہو سکا ہے۔
تنظیم نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومتِ پاکستان جبری گمشدگیوں سے تحفظ کے عالمی کنونشن کا حصہ بن کر اسے لاگو کرے اور حکومت کے لیے یہ بات باعثِ تشویش ہونی چاہیے کہ دنیا بھر میں جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے 43 ہزار افراد میں ایک قابلِ ذکر تعداد پاکستان میں جبری طور پرگمشدہ کیے جانے والوں کی ہے۔
ایچ آر سی پی کے علاوہ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس، ایمنسٹی انٹریشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے پاکستانی حکومت سے استدعا کی ہے کہ وہ ملک بھر میں ریاستی اداروں کے ذریعے اغوا ہونے والے افراد کے بارے میں معلومات فراہم نہ کرنے کے ناپسندیدہ عمل کو روکنے کے اقدامات کرے۔
ان اداروں کی جانب سے یہ اپیل ایسے وقت کی گئی ہے جب دنیا میں جبری طور پر لاپتہ ہونے والوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے سنہ 2013 میں جبری طور پر لاپتہ ہونے افراد سے انصاف کرنے کے بارے میں دی جانے والی واضح ہدایات اور اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگیوں کی سنہ 2012 میں دی جانے والی سفارشات کے باوجود پاکستان کی حکومت نے بین لاقوامی قانون اور آئینِ پاکستان کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بہت کم کام کیا ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق ان تین بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے، ان جرائم کو مرتکب کرنے والے افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کی تلافی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ان تین اداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے تحفظِ پاکستان بِل سنہ 2014 پاس کیا جو جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے افراد کی نامعلوم مقامات پر حراست کو درست اور اس میں ملوث سرکاری ایجنٹوں کو استثنیٰ فراہم کرتا ہے۔
ان تین اداروں کے مطابق یہ اقدامات انصاف کو یقینی بنانے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے بارے میں حکومت کی سنجیدگی پر شدید شکوک و شبہات ڈالتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان، پنجاب اور سندھ میں جبری گمشدگیوں کا باقاعدہ سلسلہ جاری ہے۔
بلوچستان میں سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں، صحافیوں اور وکلا کو جبری طور پر اغوا کرنے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
پاکستان میں جبری طور پر لاپتہ ہونے والے اکثر افراد کو مار دیا جاتا ہے اور ان کے جسموں پر تشدد اور گولیوں کے نشانات پائے جاتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان میں رواں سال کے شروع میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک عینی شاہد زاہد بلوچ کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے فرنٹیئر کور کے اہلکاروں نے میبنہ طور پر اغوا کیا تھا جو جبری گمشدگیوں کے ان واقعات پر مبینہ طور پر ملوث ہے۔
گمشدہ افراد کے رشتہ داروں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے ان افراد کی رہائی کے لیے وسیع پیمانے پر کیے جانے والے احتجاج اور اپیلوں کے باوجود، حکام ان کے اغوا کی شفاف تحقیقات کرنے اور ان جرائم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹرے میں لانے کے لیے میں ناکام رہے ہیں۔



Friday, 22 August 2014

بیٹیاں والدین کا زیادہ خیال رکھتی ہیں۔ 


Wednesday, 13 August 2014

یزیدی کون ہیں؟

نام یزدی ہے ۔۔ یعنی یزدان سے ۔۔ یزیدی نہیں ہے ۔۔ لیکن یہ شیطان کی پرستش

کرتے ہیں اگرچہ ان کا تصور شیطان، مسلمانوں اور مسیحیوں کے تصور سے مختلف ہے ۔۔ مزید چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ ایک مور کی پرستش کرتے ہیں ۔۔ اس کا نام ملک طاوس ہے اس کی ایک ہزار آنکھیں ہوتی ہیں ۔۔ اور سمجھیئے کہ یہ حسن و بصیرت کا پیکر ہے نظریہ تخلیق کاینات پر یقین کرتے ہیں زبان جو قدیم کردی ، قدیم ایرانی عربی اور شاید اردو کا مکسچر ہے اور بھی حیران کن ہے ۔ بے حد قدیم کمیونٹی ہے ۔ زرتشتیوں سے پہلے کی ۔۔ عقیدوں میں سورج کی پرستش بھی اعتقاد میں شامل ہے ۔
۔ یہودی اسلامی عیسای ہندو زرتشتی ۔۔۔ آپ ان میں گویا مذاہب کی تاریخ دیکھ لیں ۔
۔ آگ کو مقدس سمجھتے ہیں ، قبل عیسایئت رو من سن ورشپ پر بھی یقین کرتے ہیں ۔۔ تخلیق کاینات کا نظریہ وہی جو ہمارا ہے ، مگر سٹوری میں ایک پیچ ہے ۔۔ ان کا کہنا ہے کہ خدا نے پہلے ملک طاوس کو بنایا اور اس سے کہا تم میرے سوا کسی کو سجدہ نہ کرنا ۔ پھر فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو ۔ تو انہون نے کیا لیکن ملک طاوس نے خدا کا اولین حکم مانا ۔ خدا اس سے بہت خوش ہوا اور اسے زمین پر اپنا نایب بنا دیا اور کہا کہ اولاد آدم کے لیئے تو ہی پرستش کے لایق ہے اور اسے زمین پر اپنا نایب بنا دیا ۔۔ اس طرح سامی عقاید کے مطابق تو وہ شیطان کی پرستش کر رہے ہیں ان میں ہندوؤں جیسا سخت کاسٹ سسٹم ہے ۔ نچلی کاسٹ کے کئی جنم لینے پر بھی یقین کرتے ہیں

اور سنیئے یزدیوں کا کہ دن میں پانچ بار عبادت کرتے ہیں ۔ نماز سورج کی طرف منہ کرکے پڑھتے ہیں ۔سال میں سات دن کا روزہ رکھتے ہین ۔۔ایک پلگریمیج بھی ہوتا ہے جو اپنے ہی کسی بڑے کی مزار کا کرتے ہیں





Robots to take over many jobs done by people, for good and bad

WASHINGTON: Robots and artificially intelligent devices will take over many jobs now done by people, and experts are divided as to whether their spread will do human society more good than harm.
The Pew Research Centre said experts see a growing role for self-driving cars, delivery drones, robotic workers, smartphone-based assistants and even algorithmic journalism by 2025.
But they are divided on whether these technological advances will be helpful, with 48 per cent of respondents to Pew’s survey saying they will destroy jobs and increase income inequality.
Nevertheless, a slim majority said the technology will take over undesirable tasks and generate new kinds of human employment.
The report is not based on a randomised poll sample, but instead on an opt-in survey of people deemed experts or affiliated with certain organisations, taken between November 2013 and January 2014.
Lee Rainie, director of the Pew Research Internet Project, saidexperts see “the accelerating displacement of work that can be done more efficiently and cost-effectively” by robots.
This means “a transformation of labour, especially in the fields of transportation, fast food and medicine; freedom from day-to-day drudgery that allows people to define work in a more positive and socially beneficial way”. But Rainie said many see this as leading to “a shrinking of the middle class and expansion of the ranks of the unemployed”.
Automation is Voldemort: “Automation is (the ‘Harry Potter’ villain) Voldemort: the terrifying force nobody is willing to name,” said Jerry Michalski, founder of Relationship Economy eXpedition, a think tank of corporate executives.
“The race between automation and human work is won by automation, and as long as we need fiat currency to pay the rent/mortgage humans will fall out of the system in droves as this shift takes place.” Stowe Boyd, lead researcher at GigaOM Research, said the growing use of autonomous vehicles will take away important jobs for men such as truck and taxi drivers.
“An increasing proportion of the world’s population will be outside of the world of work — either living on the dole, or benefiting from the dramatically decreased costs of goods to eke out a subsistence lifestyle,” he said.
“The central question of 2025 will be: What are people for in a world that does not need their labour, and where only a minority are needed to guide the ‘bot-based economy?’ “Justin Reich at Harvard University’s Berkman Centre for Internet & Society, said, robots and artificial intelligence “will increasingly replace routine kinds of work — even the complex routines performed by artisans, factory workers, lawyers, and accountants. “Others were optimistic such as JP Rangaswami, chief scientist for Salesforce.com.
“The very nature of work will have changed radically by 2025, but only in economies that have chosen to invest in education, technology and related infrastructure,” he said.
“Some classes of jobs will be handed over to the ‘immigrants’ of AI and robotics, but more will be generated in creative and curating activities as demand for their services grows exponentially.
“Vint Cerf, chief Internet evangelist for Google, said: “Historically, technology has created more jobs than it destroys and there is no reason to think otherwise in this case. Someone has to make and service all these advanced devices.
“The report is based on views from nearly 1,900 respondents selected by Pew because of their background.
They were affiliated to think tanks; companies including Cisco Systems, British Telecom and Microsoft; universities such as the Massachusetts Institute of Technology; news organisations and activist groups such as the Electronic Privacy Information Centre.
Published in Dawn, August 7th, 2014

IsraHell


دماغ کو ہر عمر میں تیز رکھنے کے 10 بہترین طریقے

نیویارک : عمر بڑھنے کے ساتھ ہمارا دماغ تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے، ہم چیزیں بھولنے لگتے ہیں اور معمے حل کرنا ماضی جیسا آسان کام نہیں رہتا۔ اگرچہ بڑھاپے کے عمل کو واپسی کا راستہ دکھانا تو ممکن نہیں مگر اپنے ذہن کو ضرور ہم ہر عمر کے مطابق فٹ رکھ سکتے ہیں۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آن ایجنگ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق اکثر افراد اس بات سے لاعلم ہیں کہ دماغ کو کیسے صحت مند رکھا جاسکتا ہے۔تو اگر آپ کو بھی یہ مسئلہ درپیش ہے تو یہ چند سادہ ورزشیں کافی مددگار ثابت ہوں گی۔

دماغی گیمز کھیلنا

جی ہاں اگر آپ روزانہ اخبارات میں کراس ورڈز یا دیگر معموں کو حل کرنے کے شوقین ہے تو یہ عادت آپ کے دماغ کیلئے فائدہ مند ہے، بنیادی ریاضی اور اسپیلنگ اسکلز کی مشق جیسے دماغی کھیلوں کا مطلب یہ ہے آپ اپنے دماغ کو زیادہ چیلنج دے رہے ہیں جو اسے تیز رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ورزش

جسمانی ورزشیں درحقیقت دماغ کیلئے بھی فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں، روزانہ 30 منٹ سے ایک گھنٹے تک ورزش جیسے یوگا، چہل قدمی، سائیکلنگ، تیراکی اور دیگر وغیرہ بہت آسان بھی ہیں اور تفریح سے بھرپور بھی، جس سے دماغ کو گرمی کے موسم سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد بھی ملتی ہے۔

صحت بخش خوراک

خوراک میں صحت بخش اجزاءکا استعمال ہی صحت مند دماغ کی ضمانت ہوتے ہیں، مضر صحت اجزاءجیسے کیفین ، تمباکو نوشی اور الکحل کا استعمال محدود تو کرنا ہی چاہئے، زیادہ نمک کھانے سے بھی بچنا اہئے کیونکہ یہ ذیابیطس، ہائی بلڈپریشر اور فالج جیسے امراض کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

سماجی طور پر متحرک رہنا

دن بھر میں کچھ منٹ اپنے دوستوں سے کسی بھی موضوع پر بات کرنے کیلئے وقت نکالیں، اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے گھلنا ملنا دماغ کو چوکنا رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

روزانہ کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کرنا

یہ کچھ بھی ہوسکتا ہے جیسے کھانے پکانے کی کوئی نئی ترکیب پڑھ کر اسے سیکھنے کی کوشش کرنا یا کسی نئے لفظ کا مطلب سمجھنا یا اپنے دفتر جانے کیلئے نیا راستہ اختیار کرنا۔ اپنی معمول کی روٹین سے باہر نکل کر کچھ نیا کرنا آپ کے دماغ میں ایک نیا جوش پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

نئی زبان سیکھنا

تحقیقی رپورٹس میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ایک سے زائد زبانوں سے واقفیت ایک بوڑھاپے میں صحت مند دماغ کا سبب بنتی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ دماغ کو مشکل حالات سے نمٹنے میں مدد بھی ملتی ہے۔

ڈاکٹر سے بات چیت

اگر آپ کی عمر 55 سال سے اوپر ہے تو اپنی دماغی صحت کے حوالے سے ڈاکٹرز سے چیک اپ کرواتے رہیں، کیونکہ اکثر ذہنی امراض کا آغاز 55 سال کی عمر کے بعد ہی ہوتا ہے۔

پڑھنا

کتابوں سے لیکر بلاگز یا تازہ ترین خبریں پڑھنے تک سب کچھ کے ساتھ مطالعہ آپ کے دماغ کو نئے الفاظ سیکھنے اور یاداشت بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

زیادہ پانی پینا

روزانہ کم از کم چھ سے 8 گلاس پانی کا استعمال صحت مند دماغ کیلئے بہت ضروری ہے۔

موسیقی سننا

موسیقی سے توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے، اور موسیقی سے دماغی افعال میں بہتری آتی ہے ، جبکہ ڈیمنیشیا جیسے دماغی مرض پر قابو پانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔

Thursday, 7 August 2014

’اصلی ہیرو فلسطینی ہیں‘

غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران وہاں کام کرنے والے ایک طبی ماہر کے مطابق ماضی کے برعکس اس بار اسرائیلی فوج نے منظم طریقے سے حملے کیے ہیں جس میں انھوں نے عام شہریوں کے مکانات کو ہدف بنایا ہے۔

ڈاکٹر میڈز گلبرٹ سے غزہ کی وزارتِ صحت نے درخواست کی تھی کہ وہ حالیہ بحران کے دوران غزہ کے الشفا ہسپتال آئیں
ڈاکٹر گلبرٹ کے مطابق یوں وہ ایک ڈاکٹر نہ کہ کارکن کی حیثیت سے غزہ گئے اور الشفا ہسپتال میں 15 روز تک کام کرنے کے بعد حال ہی میں ناروے واپس لوٹے ہیں۔

غزہ سے انھوں نے ایک خط لکھا جو مڈل ایسٹ مانیٹر یا ’میمو‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔

اس خط میں ڈاکٹر گلبرٹ نے امریکی صدر براک اوباما کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’مسٹر اوباما کیا آپ کا دل ہے؟ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ ایک رات، بس صرف ایک رات، ہمارے ساتھ الشفا میں گزاریں۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ اس سے تاریخ تبدیل ہو جائےگی۔‘

یہ خط سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔ میں نے میڈز گلبرٹ سے پوچھا کہ جو رات ان کے خیال میں اوباما کا دل اور اس کے نتیجے میں تاریخ تبدیل کر سکتی ہے وہ رات کیسی ہے؟
اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’اس رات ایک بہت بڑی تعداد میں زخمی ہونے والے عام شہری ہسپتال لائے گئے جن میں کئی بچے تھے اور شفا ہسپتال ایک جنگ زدہ علاقہ لگ رہا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہر جگہ مرنے والے یا مرے ہوئے لوگ نظر آ رہے تھے۔ کبھی کبھی آپ خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتے ہیں۔ کام نہایت سخت ہے۔ ہسپتال میں جگہ جگہ گوشت کے ٹکڑے اور خون نظر آ رہا تھا۔‘

اس سوال پر کہ کیا ہر روز شفا ہسپتال میں ایسا ہی منظر پایا جاتا ہے، ڈاکٹر میڈز کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اسرائیل کی طرف سے حملے کب ہوں گے اور ان کی شدت کیا ہوگی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس بار غزہ میں کسی ایک دن دس سے لے کر چار سو تک زخمی لوگ ہسپتال میں آتے ہیں اور شفا ہسپتال کے لیے سب سے بڑی مشک یہی ہے کہ وہ اتنی تعداد میں لوگوں کا کیسے علاج کریں گے۔‘

میڈز گلبرٹ کے لیے فلسطین کوئی نا آشنا جگہ نہیں ہے۔ وہ پہلی انتفاضہ (1993-1987) کے وقت سے غزہ کے صحت کے نظام سے وابستہ ہیں۔ میڈز کہتے ہیں کہ طبی خدمت فراہم کرنے کے علاوہ وہ فلسطین میں ’گواہ کی حیثیت‘ سے بھی جاتے رہے ہیں تا کہ وہ صورت حال کی تفتیش اور اس کے بارے میں حالات قلم بند کر سکیں۔ ڈاکٹر گلبرٹ اپنے اس کام کو ’سولیڈیرٹی میڈیسن‘ یا ’اتحاد میڈیسن‘ کہتے ہیں، جس کے تحت ’جن لوگوں کو شدید ضرورت ہے ان کی مدد کی جائے۔
ماضی کے تجربات کے مقابلے میں میڈز گلبرٹ کہتے ہیں کہ ’2009 اور 2012 کے حملوں کے مقابلے میں یہ اسرائیل کی جانب سے سب سے شدید حملہ ہے جس میں ایک بڑی تعداد میں لوگ مارے اور زخمی ہوئے ہیں جن میں سینکڑوں بچے بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹر کے مطابق ’اس بار اسرائیلی فوج نے منظم طریقے سے حملے کیے ہیں جس میں انھوں نے عام شہریوں کے مکانات کو ہدف بنایا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’بڑی تعداد میں ایک ہی خاندان کے لوگ ہسپتال آتے تھے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حملوں میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔‘

اقوام متحدہ کے مطابق اس بحران میں ہلاک ہونے والے 85 فیصد فلسطینی عام شہری تھے جبکہ چار فیصد اسرائیلی عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ یو این کے مطابق 16 ہزار تک گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ کیے گیے ہیں۔

ڈاکٹر میڈز کے مطابق یہ ایک شدید انسانی بحران ہے جو کہ اب تک جاری ہے کیوں کہ اس وقت غزہ میں 485 ہزار فلسطینی بے گھر ہیں جن میں سے کئی لوگ شفا ہسپتال علاج کے لیے آئے تھے اور ’ان کے پاس واپس جانے کے لیے اب کوئی گھر نہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ مزید 9,300 زخمی لوگوں کو علاج کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر میڈز کی نظر میں اسرائیل کا حملہ حماس کے خلاف نہیں بلکہ ’فلسطینی لوگوں کے خلاف‘ تھا۔
جاری جنگ بندی کے حوالے سے ڈاکٹر میڈز گلبرٹ کا کہنا ہے کہ فلسطینی ’ماضی کی طرح محض جنگ بندی نہیں چاہتے، بلکہ اپنا حق مانگتے ہیں۔ وہ غلاموں کی زندگی نہیں گزارنا چاہتے اور اس جنگ بندی کے دوران ان کے مطالبوں کو سنا جانا چاہیے۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ ڈاکٹر ہونے کے ناطے وہ بالخصوص کن چیزوں کی توقع کرتے ہیں تو گلبرٹ نے جواب دیا: ’بم دھماکے فوری طور پر روکے جانے چاہییں، محاصرہ ختم کر دیا جائے، سرحدوں کو کھول جائے تا کہ زخمی لوگوں کو غزہ سے باہر اچھا علاج مہیا کیا جا سکے اور ادویات کو غزہ میں آنے کی اجازت دی جائیں۔‘

ڈاکٹر میڈز پر اکثر تنقید کی گئی ہے کہ وہ اپنے پیشے کے ساتھ ساتھ سیاسی رائے رکھتے ہیں اور اسرائیل کے خلاف پروپگینڈا کرنے میں ملوث ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اصل ’میڈز گلبرٹ‘ کون ہیں، تو انھوں نے کہا کہ ’میں ایک انسان ہوں اور جہاں بھی کسی کو مدد چاہیے ہو گی، چاہے وہ ناروے کے کسی گاؤں میں ہو یا غزہ میں تو میں اسی کی طرف داری کروں گا۔ ایک عام آدمی کی حیثیت میں میں جتنی بھی سیاسی رائے رکھتا ہوں، میں بس انصاف چاہتا ہوں۔‘

ناروے اور دنیا بھر میں کئی لوگ ڈاکٹر میڈز گلبرٹ کو ہیرو سمجھتے ہوں گے لیکن ان کہنا ہے کہ ’فلسطینی لوگ اور فلسطینی ڈاکٹر اصلی ہیرو ہیں۔ وہ اپنے وقار سے ہمیں انسان ہونا اور انسانیت کا مطلب سکھا رہے ہیں۔‘

Letter from Gaza by a Norwegian doctor

Dearest friends,

The last night was extreme. The "ground invasion" of Gaza resulted in scores and carloads with maimed, torn apart, bleeding, shivering, dying - all sorts of injured Palestinians, all ages, all civilians, all innocent.

The heroes in the ambulances and in all of Gaza's hospitals are working 12-24 hour shifts, grey from fatigue and inhuman workloads (without payment all in Shifa for the last 4 months), they care, triage, try to understand the incomprehensible chaos of bodies, sizes, limbs, walking, not walking, breathing, not breathing, bleeding, not bleeding humans. HUMANS!

Now, once more treated like animals by "the most moral army in the world" (sic!).

My respect for the wounded is endless, in their contained determination in the midst of pain, agony and shock; my admiration for the staff and volunteers is endless, my closeness to the Palestinian "sumud" gives me strength, although in glimpses I just want to scream, hold someone tight, cry, smell the skin and hair of the warm child, covered in blood, protect ourselves in an endless embrace - but we cannot afford that, nor can they.

Ashy grey faces - Oh NO! Not one more load of tens of maimed and bleeding, we still have lakes of blood on the floor in the ER, piles of dripping, blood-soaked bandages to clear out - oh - the cleaners, everywhere, swiftly shovelling the blood and discarded tissues, hair, clothes,cannulas - the leftovers from death - all taken away ... to be prepared again, to be repeated all over. More then 100 cases came to Shifa in the last 24 hrs. Enough for a large well trained hospital with everything, but here - almost nothing: no electricity, water, disposables, drugs, OR-tables, instruments, monitors - all rusted and as if taken from museums of yesterday's hospitals. But they do not complain, these heroes. They get on with it, like warriors, head on, enormously resolute.

And as I write these words to you, alone, on a bed, my tears flow, the warm but useless tears of pain and grief, of anger and fear. This is not happening!

An then, just now, the orchestra of the Israeli war-machine starts its gruesome symphony again, just now: salvos of artillery from the navy boats just down on the shores, the roaring F16, the sickening drones (Arabic 'Zennanis', the hummers), and the cluttering Apaches. So much made in and paid by the US.

Mr. Obama - do you have a heart?

I invite you - spend one night - just one night - with us in Shifa. Disguised as a cleaner, maybe.

I am convinced, 100%, it would change history.

Nobody with a heart AND power could ever walk away from a night in Shifa without being determined to end the slaughter of the Palestinian people.

But the heartless and merciless have done their calculations and planned another "dahyia" onslaught on Gaza.

The rivers of blood will keep running the coming night. I can hear they have tuned their instruments of death.

Please. Do what you can. This, THIS cannot continue.


Mads Gilbert MD PhD
Professor and Clinical Head
Clinic of Emergency Medicine
University Hospital of North Norway

Wednesday, 6 August 2014

شاباش! سعیدہ وارثی

لندن.....برطانیہ کی مستعفی ہونے والی وزیرسعیدہ وارثی کا کہنا ہے انہوں نے استعفے کا فیصلہ ضمیر کی آواز پر کیا۔ غزہ میں ہونے والے جنگی جرائم اور تباہی پر جواب طلبی ہونی چاہیے۔ یہ بات انہوں نے یہ جیو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔سعیدہ وارثی نے کہا کہ غزہ میں ہونے والی تباہی پر جواب طلبی ہونی چاہیے۔بچوں کو قتل کرنے والے ملک کو برطانیہ ہتھیارفراہم کررہا ہے،غزہ کی بحالی کے لیےواضح منصوبہ بندی کی جائے۔ مستعفی برطانوی وزیر کا کہنا تھا کہ فلسطین میں ہونےوالےجنگی جرائم پرجواب دیناہوگا۔
برطانوی وزیر سعیدہ وارثی نے اپنی حکومت کی غزہ پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ سعیدہ وارثی کے اس جذبے کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے اور ساتھ ساتھ مسلم حکمرانوں کی روایتی بیان بازی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہی تصور ہوگی۔57 اسلامی ممالک کی جانب سے صرف مذمتی بیانات کے علاوہ غزہ کے معصوم شہریوں کے لیے کوئی بامعنی اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے۔ اوآئی سی جسے مسلم امہ کی نمائندہ تنظیم کہا جاتا ہے، کے سیکریٹری جنرل نے اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کو جارحیت سے نہیں روک سکتے۔پاکستانی نژاد سعیدہ وارثی کا ضمیر پاکستان میں رہنے والوں سے زیادہ باکردار ثابت ہوا ہے جس کی وجہ ان کا صرف پاکستانی یا مسلمان ہونا نہیں بلکہ برطانیہ کا وہ ماحول اور قانون بھی ہے جس نے ان کو اتنی ہمت دی کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز سنیں۔ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کیلئے سوچنے کا مقام ہے جو پاکستان کو اسلام کا قلعہ تو قراردیتے ہیں لیکن مسلمانو کے تحفظ کیلئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے۔ آج کے اخبارات میں صدر ممنون حسین کی او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ مسکراہٹ بھری تصاویر شائع ہوئی ہیں جبکہ برازیلین صدر اور وینزویلا کی حکومت نے اعلانات کیے ہیں اس پر ہمارے سر شرم سے جھک جانے چاہئیں۔ جو 19سو جانوں کی شہادت پر بھی کچھ نہ کرسکے، افسوس ہے!!!! - 

Tuesday, 5 August 2014

Opinion: Hamas not just a terror group

Editor's note: Ed Husain is a senior fellow for Middle Eastern studies at the Council on Foreign Relations. The author of "The Islamist" can be followed on Twitter via @Ed_Husain. The opinions in this commentary are solely those of Ed Husain.  (CNN) -- 
"Who do you want to see?" asked the Salafi Jihadists holding their AK-47s at the gate. "Hamas leaders," I replied.
"Why Hamas? Why not our Jihadi brothers?" the guard asked.
"Well, Hamas are in government in Gaza."
"They won't be in future," he responded. "They have sold out and become agents of the Israelis, and in years to come we will govern Gaza. Be sure to meet our brothers here in the camp, too."
The guard then gave me directions to a safe house where someone could take me to Hamas.
This was last summer. I was visiting a Palestinian refugee camp in Beirut for book research. It took me two more days to locate Hamas leadership. Inside the camp, just as in Gaza, Hamas had a wide network of schools, financiers, mosques, makeshift hospitals, readily available doctors, banking services, and support for orphans and widows. We in the West deem Hamas a terrorist organization. Yes, one part of it is committed to terrorism, killing innocent civilians in the pursuit of political aims, but we are mistaken if we continue to limit our definition by one aspect of Hamas.
Unless we better understand Hamas, we cannot help halt the killings of Israelis and Arabs in the Middle East. Hamas is not a monolith, nor is it only a terrorist group: It is a social movement, with a mass membership, a popular message of resistance that resonates across the Muslim world, and a political party with which we must negotiate.
"When the Israelis were fighting Yasser Arafat and the PLO, the Arabs were losing," the Hamas leader -- whose name I must withhold -- told me. "We saw them abandon anti-aircraft missiles here in Beirut in the 1980s. But now, with Hezbollah and Hamas, we fight to die, to kill. We believe in martyrdom. We don't flee from the battlefield."
To my Hamas hosts, Israel's operation in Lebanon in 2006, or its attack on Gaza in 2009, were huge victories. "We are now winning. We fight Israel and want to fight again and again." This strong belief that they are victorious is in itself a loss for Israel: It has failed to weaken Hamas.
Fighting and killing have been a curse to Israel's existence over the last six decades. The trajectory has been to make Israel weaker and more hated around the world; to popularize the ideology of radicalism amid Muslims and fuel anti-Americanism in the Middle East. Israel cannot kill itself into security or survival. It must learn the language of peace and co-existence.
For how much longer will we in the West continue to damage our own standing in the nearly 2 billion-strong Muslim world as our ally Israel delivers dead children and destroyed schools to Muslim television screens?
srael killed Hamas founder Sheikh Ahmed Yassin in 2004,along with several bodyguards, and then his successors, promising us that this would help reduce violence and terror. Almost a decade later, Hamas is not only strong and vibrant, in government since 2007, but lobbing rockets at Jerusalem and kidnapping Israeli soldiers. In short, Hamas is strong and growing psychologically stronger, while Israel has failed to achieve its peace and security.
Worse, contrary to what many believed, Hamas was not weakened when Egypt's President Mohamed Morsy, a supporter, was toppled in July 2013. Morsy made many mistakes, but President Obama's telephone calls to him helped bring Hamas to the table and secure a cease-fire in 2012 much sooner.
Israel does not deserve all the blame. Arab political and religious leaders, despite historic grievances, have a duty to recognize that Israel is their neighbor. Israel is part of the mosaic of the modern Middle East. A change in tone and tenor and a public embrace of Israel by religious leaders will calm the nerves of an anxious Israeli population.
In the end, Israel has limited options. Peace is not possible without Hamas, and Hamas is not a simple terrorist outfit. Its political arm, its leadership inside and outside Gaza, despite their tensions, are open to indirect talks with Israel.
Just as the British and American governments negotiated peace inNorthern Ireland by reaching out to IRA terrorists through their political wing of Sinn Fein, we must tame Hamas through politics, not the failed strategy of war.
Hamas and Islamic Jihad were among the Palestinian groups that met in Cairo Sunday and reached a 72-hour humanitarian cease-fire agreement brokered by Egyptian officials.
Here, the European Union and the United States can work through Fatah, Qatar, Turkey, Saudi Arabia and negotiate along the 2002 Arab peace plan suggested by Saudi Arabia.
Hamas must be brought in. Almost 2 million people in Gaza need our support. If we fail to bring in Hamas and create a sustained peace that leads to prosperity for Palestinians and Israelis, then we must prepare for an enemy who is worse: Salafi Jihadis. And with Gaza, the popularity of the Salafi Jihadi message will spread far and wide.
My guard at the refugee camp insisted I speak with his brothers-in-arms. I did not, but I fear he might be right. Will Israel help itself and us, or hinder?

Friday, 1 August 2014

USA War History

The US People must be tired of War, Wars and more Wars. No other Country has been at War as constantly since WW2 as the US.
The US People must be weary of Body Bags coming home from Wars they don't win.
Then you have more Lies and more Deceit just to go to another War.
The push by the US Government to be the Worlds Policeman and Bully has come at the expense of World public opinion.
So the US Government has sought other alternatives to achieve the same Goal, Mercenaries, funding Terrorists, Syria being an example of this, and worst of all Involving Allies to further their own interests in their Cause whether its for Ideology, Resources or their own Currency Status.
The following is a list of countries invaded by the US forces (naval, military and ultimately air forces) since its inception in order of major incidents.

(1) American Indian nations (1776 onwards, American Indian Genocide; 1803, Louisiana Purchase; 1844, Indians banned from east of the Mississippi; 1861 onwards, California genocide; 1890, Lakota Indians massacre), (2) Mexico (1836-1846; 1913; 1914-1918; 1923), (3) Nicaragua (1856-1857; 1894; 1896; 1898; 1899; 1907; 1910; 1912-1933; 1981-1990), (4) American forces deployed against Americans (1861-1865, Civil War; 1892; 1894; 1898; 1899-1901; 1901; 1914; 1915; 1920-1921; 1932; 1943; 1967; 1968; 1970; 1973; 1992; 2001), (5), Argentina (1890), (6), Chile (1891; 1973), (7) Haiti (1891; 1914-1934; 1994; 2004-2005), (8) Hawaii (1893-), (9) China (1895-1895; 1898-1900; 1911-1941; 1922-1927; 1927-1934; 1948-1949; 1951-1953; 1958), (10) Korea (1894-1896; 1904-1905; 1951-1953), (11) Panama (1895; 1901-1914; 1908; 1912; 1918-1920; 1925; 1958; 1964; 1989-), (12) Philippines (1898-1910; 1948-1954; 1989; 2002-), (13) Cuba (1898-1902; 1906-1909; 1912; 1917-1933; 1961; 1962), (14) Puerto Rico (1898-; 1950; ); (15) Guam (1898-), (16) Samoa (1899-), (17) Honduras (1903; 1907; 1911; 1912; 1919; 1924-1925; 1983-1989), (18) Dominican Republic (1903-1904; 1914; 1916-1924; 1965-1966), (19) Germany (1917-1918; 1941-1945; 1948; 1961), (20) Russia (1918-1922), (21) Yugoslavia (1919; 1946; 1992-1994; 1999), (22) Guatemala (1920; 1954; 1966-1967), (23) Turkey (1922), (24) El Salvador (1932; 1981-1992), (25) Italy (1941-1945); (26) Morocco (1941-1945), (27) France (1941-1945), (28) Algeria (1941-1945), (29) Tunisia (1941-1945), (30) Libya (1941-1945; 1981; 1986; 1989; 2011), (31) Egypt (1941-1945; 1956; 1967; 1973; 2013), (32) India (1941-1945), (33) Burma (1941-1945), (34) Micronesia (1941-1945), (35) Papua New Guinea (1941-1945), (36) Vanuatu (1941-1945), (37) Austria (1941-1945), (38) Hungary (1941-1945), (39) Japan (1941-1945), (40) Iran (1946; 1953; 1980; 1984; 1987-1988; ), (41) Uruguay (1947), (42) Greece (1947-1949), (43) Vietnam (1954; 1960-1975), (44) Lebanon (1958; 1982-1984), (45) Iraq (1958; 1963; 1990-1991; 1990-2003; 1998; 2003-2011), (46) Laos (1962-), (47) Indonesia (1965), (48) Cambodia (1969-1975; 1975), (49) Oman (1970), (50) Laos (1971-1973), (51) Angola (1976-1992), (52) Grenada (1983-1984), (53) Bolivia (1986; ), (54) Virgin Islands (1989), (55) Liberia (1990; 1997; 2003), (56) Saudi Arabia (1990-1991), (57) Kuwait (1991), (58) Somalia (1992-1994; 2006), (59) Bosnia (1993-), (60) Zaire (Congo) (1996-1997), (61) Albania (1997), (62) Sudan (1998), (63) Afghanistan (1998; 2001-), (64) Yemen (2000; 2002-), (65) Macedonia (2001), (66) Colombia (2002-), (67) Pakistan (2005-), (68) Syria (2008; 2011-), (69) Uganda (2011), (70) Mali (2013), (71) Niger (2013).

In the period 1950-2005 there have been 82 million avoidable deaths from deprivation (avoidable mortality, excess deaths, excess mortality , deaths that did not have to happen) associated with countries occupied by the US in the post-1945 era.

According to Canadian geographer Professor Jules Dufour : “The US has established its control over 191 governments which are members of the United Nations.

America has invaded 70 countries since its 4th of July Independence Day in 1776. American imperialism has made a major contribution to the 1.3 billion global avoidable deaths in the period 1950-2005. The Neocon American and Zionist Imperialist One Percenters can be seen as the New Nazis. The World, including ordinary Americans (1 million of whom die preventably each year) [10], must shake off the shackles of endless American One Percenter warmongering, imperialism and mendacity. The World must make the Fourth of July Independence from America Day. Tell everyone you can. [Counter Currents]

 http://www.countercurrents.org/polya050713.htm


US Israeli Defence relationship

29TH January 2014 US Foreign Affairs Committee approved a Bill that would enhance an already close US Israeli Defence relationship.
The US names Israel as a Major Strategic Ally no other US Ally has that status.
The measure calls for the expanding of the US reserve of Weapons in Israel.

Israel and the US must be held accountable like any other rouge Nation but of course that will not happen unfortunately.
All the World needs to do is just kill the USD, do that and you kill their War Machine, the World Economy would suffer badly as a result but it would be price worth paying.