Saturday, 30 August 2014

غزہ جنگ میں اسرائیل ناکام، حماس فاتح

اگرچہ یہ کوئی زبردست کامیابی نہیں مگر پھر بھی غزہ میں فلسطینی جشن منا رہے ہیں، منگل کی رات جب غزہ کی فضاﺅں پر پر آتش بازی کا مظاہرہ ہورہا تھا تو عالمی میڈیا کے بیشتر صحافی اپنے سروں کو ہلا رہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ 2100 سے زائد ہلاکتوں جن میں سترہ سو کے قریب عام شہری تھی، اور ایک لاکھ زخمیوں کے باوجود یہ اتنے خوش کیوں ہیں؟ کیا قتل عام روکنے پر؟ یا امن پر؟
نہیں، درحقیقت حماس برا، خوفناک ، دہشت گرد حماس جس سے "ہم" (مغرب، ٹونی بلیئر، اسرائیل، امریکہ اور تمام قابل احترام مرد و خواتین) سے بات نہیں کرتے، فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
اسرائیل کہتا تھا کہ اسے غیرمسلح ہونا ہوگا، مگر وہ غیر مسلح نہیں ہوئی، اسرائیل کا کہنا تھا کہ اسے جڑ سے مٹا دیں گے، مگر ان کا خاتمہ نظر نہیں آرہا۔
اسرائیل دعویٰ کرتا تھا کہ تمام سرنگوں کو تباہ کردیا جائے گا مگر ایسا بھی نہیں ہوا۔
تمام راکٹوں کو قبضے میں لینا ہوگا مگر ایسا بھی نہیں ہوسکا، تو 65 اسرائیلی فوجی مارے گئے مگر کس لیے؟ پس منظر میں خاموشی سے حماس (اور اسلامک جہاد) کی سیاسی قیادت جو اسرائیل، امریکہ اور مصر کو پسند نہیں، نے قاہرہ میں " امن" مذاکرات میں حصة لیا۔
اسرائیل میں کوئی جشن نہیں مانایا جارہا ہے، بنیامین نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت جو ایک بار پھر فتح کے دعوے کرتے ہوئے جنگ کے میدان میں کودی اور اس کا اختتام دوبارہ جنگ بندی کے ساتھ کیا، جیسا 2009 اور 2012 کی غزہ جنگوں کے دوران کیا۔
کہا جاسکتا ہے کہ میدان میں اسرائیلی فاتح رہے، کیونکہ تمام جانوں کا ضیاع، عمارتوں اور انفراسٹرکچر کی تباہی اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ فلسطینی جنگ کے میدان میں " غالب" رہے، مگرحکمت عملی کے میدان میں فلسطینی میدان مارنے میں کامیاب رہے۔
وہ ابھی بھی غزہ میں ہیں، حماس تاحال غزہ میں ہے اور فلسطینی اتھارٹی اور حماس کی اتحادی حکومت بھی حقیقت نظر آتی ہے۔
متعدد بار یہ کہا گیا کہ اسرائیلی ریاست کے بانیوں کو ایک مسئلے کا سامنا ہے، ایک سرزمین جسے فلسطین کہا جاتا ہے، وہ اس مسئلے کے سااتھ سرد مزاجی، سختی اور موثر طریقے سے نمٹتے رہے ہیں، مگر اب اب نا کا مسئلہ فلسطینی بن چک ہیں، ان کی سرزمین تو اسرائیل کے قبضے میں جاچکی ہے، جبکہ باقی ماندہ علاقوں کو اسرائیلی کالونیاں ہڑپ کرنے والی ہیں، مگر فلسطینی اتنی آسانی سے ہار ماننے کے لیے تیار نہیں، اور انہیں بڑی تعداد میں قتل کرنا خاص طور پر عالمی ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے زیادہ بدنامی اور " یہودی مخالف" جذبات کا سبب بن رہا ہے۔
اسرائیلی ترجمان تو اپنے اقدامات کا موزانہ خونریز دوسری جنگ عظیم میں برطانوی فضائی حملوں سے کررہے ہیں، ان پروپگینڈہ حملوں کو 21 ویں صدی میں ہضم کرنا بہت مشکل ہے، مگر دنیا دیگر معاملات پر بھی اپنی ناخوشی کا اظہار کررہی ہے۔
مثال کے طور پر حماس کے ترجمان اسرائیل اور صہیونیت پرستی کی تباہی کے دعویٰ کرتے ہیں ان کی مبالغہ آرائی بھی اسرائیلی بہانوں کی طرح سمجھ سے بالاتر ہیں، ان کے بقول"درحقیقت دنیا نے جو عظیم ترین کامیابی دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ حماس نے اسرائیل کے خلاف کسی عرب فوج سے زیادہ حاصل کیا ہے "۔
درحقیقت حزب اللہ اٹھارہ سال کی گوریلا جنگ کے بعد پوری اسرائیلی فوج کو لبنان سے باہر نکالنے میں کامیاب رہی، جس میں دونوں اطراف کی اتنی ہلاکتیں ہوئیں جس کا حماس تصور بھی نہیں کرسکتی۔
ہم بہت جلدی حماس کے قاتل اسکواڈ کو بھول گئے، جس نے غزہ میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کم از کم اکیس " جاسوسوں" کو موت کی سزا سنائی۔
میں نے نوٹس کیا ہے کہ انہوں نے فلسطینی ہلاکتوں کی تفصیلی فہرست جاری نہیں کی ہے اور میں حیران ہوں کہ ایسا کیوں نہیں ہوا، کیا وہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلیوں سے بھی زیادہ غیرانسانی سلوک کرتے ہیں؟ ہاں یقیناً ایسا ہوتا ہے، اس ہفتے جب آئی ایس آئی ایس اپنی موت کی سزاﺅں سے دنیا کا منہ چڑھا رہی ہے، حماس نے دکھایا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔
حماس کے تین اہم فوجی لیڈرز اسرائیل کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد ہم اور کیا توقع کرسکتے تھے؟ مگر دلچسپ چیز یہ ہے کہ کسی عدالتی سماعت اور انسانی حقوق کا خیال رکھے بغیر اس " انصاف" پر ایک بھی فلسطینی احتجاج نظر نہیں آیا۔
ایسا ہی کوئی احتجاج 2008-09 میں سترہ "جاسوسوں" کی سزا پر بھی نہیں ہوا جنھیں آج ہم بھول چکے ہیں، جبکہ 2012 میں چھ " جاسوس" کے ساتھ ایسا ہوا۔
اور جب "فوجی" ہلاکتوں کی بات ہوتی ہے تو پانچ سو کے قریب حماس کے کارکن مارے گئے ہیں، جبکہ 2008-09 میں یہ تعداد دو سو تھی، مگر اس جنگ میں صرف چھ اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے تھے، جبکہ موجودہ جنگ میں یہ دس گنا زیادہ اسرائیلی مارے گئے ہیں، باالفاظ دیگر حماس اور میرے خیال میں اسلامک جہاد نے سیکھا ہے کہ کس طرح لڑا جاتا ہے۔
حزب اللہ مشرق وسطیی کی سب سے موثر گوریلا فوج ہے اور وہ بھی اس کا کا نوٹس لے رہی ہے، اور ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ غزہ سے برسائے جانے والے راکٹ اسرائیل بھر میں سینکڑوں میلوں تک پھیلے ہیں، "آئرن ڈوم" کے باوجود پہلے سدورت خطرے کی زد میں آیا، اور اب ہم نے دیکھا کہ بن گوریان ائرپورٹ سے پروازیں منسوخ کی گئیں۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں محمود عباس اس معاہدے پر مصریوں اور امریکیوں کے سامنے عاجزی سے شکرگزاری کا احساس کررہے ہیں، مگر نئی "مشترکہ" فلسطینی حکومت میں حماس محمود عباس کو بتانے والی ہے کہ وہ کتنی"حمایت" حاصل کرسکتے تھے۔
مصر کے محصور اخوان المسلمون سے دوری اور حماس کو سائیڈلائن کرکے اسرائیلیوں اور امریکیوں کے لیے قاہرہ امن معاہدے کو حماس نے تنازعے کے دوران فوری طور پر مسترد کردیا تھا، جس نے مصر کے صدر فیلڈ مارشل السیسی کو تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ حماس امن معاہدے کے لیے اہم عرب فریق ہیں۔
اور اس وقت حیرت انگیز امر یہ ہے کہ مصر لیبیا میں اسلام پسندوں پر بمباری کررہا ہے جبکہ امریکہ عراق کے بعد شام میں آئی ایس آئی ایس پر بمباری کی تیاراں کررہا ہے، مگر غزہ میں اسلام پسند جیتنے میں کامیاب رہے، مگر یقیناً یہ کامیابی ہمیشہ کے لیے نہیں۔

0 comments:

Post a Comment