Saturday 30 August 2014

’پاکستان جبری گمشدگیوں پر عالمی کنونشن کی توثیق کرے‘

حقوقِ انسانی کی عالمی اور مقامی تنظیموں نے حکومتِ پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ملک سے جبری طور پر گمشدگیوں کے واقعات کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرے۔
30 اگست کو لاپتہ افراد کے عالمی دن کے موقع پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت فوری طور پر جبری گمشدگیوں سے تحفظ کے عالمی کنونشن کی توثیق کرے۔
حقوقِ انسانی کی پاکستانی تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ بلوچستان میں اس قسم کے واقعات میں کسی حد تک کمی آئی ہے لیکن اب صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ سندھ میں ایسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان معاملات میں خصوصاً ناقابلِ قبول بات یہ ہے کہ لاپتہ ہونے والے افراد سیاسی مخالفت اور کمیونسٹ سرگرمیوں کے حوالے سے جانے جاتے تھے اور ان افراد کے لواحقین قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان گمشدگیوں کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں
ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ متاثرین کی دادرسی کے فورم اور عدالتیں ایسے افراد کی جلد بازیابی ممکن بنانے میں ناکام رہی ہیں اور ان جبری گمشدگیوں کے ذمہ داران کو سزا دینے اور متاثرین کے مسائل کا ازالہ کرنے کے لیے قومی سطح پر جامع منصوبہ بنانے پر بھی زیادہ کام نہیں ہو سکا ہے۔
تنظیم نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومتِ پاکستان جبری گمشدگیوں سے تحفظ کے عالمی کنونشن کا حصہ بن کر اسے لاگو کرے اور حکومت کے لیے یہ بات باعثِ تشویش ہونی چاہیے کہ دنیا بھر میں جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے 43 ہزار افراد میں ایک قابلِ ذکر تعداد پاکستان میں جبری طور پرگمشدہ کیے جانے والوں کی ہے۔
ایچ آر سی پی کے علاوہ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس، ایمنسٹی انٹریشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے پاکستانی حکومت سے استدعا کی ہے کہ وہ ملک بھر میں ریاستی اداروں کے ذریعے اغوا ہونے والے افراد کے بارے میں معلومات فراہم نہ کرنے کے ناپسندیدہ عمل کو روکنے کے اقدامات کرے۔
ان اداروں کی جانب سے یہ اپیل ایسے وقت کی گئی ہے جب دنیا میں جبری طور پر لاپتہ ہونے والوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے سنہ 2013 میں جبری طور پر لاپتہ ہونے افراد سے انصاف کرنے کے بارے میں دی جانے والی واضح ہدایات اور اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگیوں کی سنہ 2012 میں دی جانے والی سفارشات کے باوجود پاکستان کی حکومت نے بین لاقوامی قانون اور آئینِ پاکستان کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بہت کم کام کیا ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق ان تین بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے، ان جرائم کو مرتکب کرنے والے افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کی تلافی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ان تین اداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے تحفظِ پاکستان بِل سنہ 2014 پاس کیا جو جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے افراد کی نامعلوم مقامات پر حراست کو درست اور اس میں ملوث سرکاری ایجنٹوں کو استثنیٰ فراہم کرتا ہے۔
ان تین اداروں کے مطابق یہ اقدامات انصاف کو یقینی بنانے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے بارے میں حکومت کی سنجیدگی پر شدید شکوک و شبہات ڈالتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان، پنجاب اور سندھ میں جبری گمشدگیوں کا باقاعدہ سلسلہ جاری ہے۔
بلوچستان میں سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں، صحافیوں اور وکلا کو جبری طور پر اغوا کرنے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
پاکستان میں جبری طور پر لاپتہ ہونے والے اکثر افراد کو مار دیا جاتا ہے اور ان کے جسموں پر تشدد اور گولیوں کے نشانات پائے جاتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان میں رواں سال کے شروع میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک عینی شاہد زاہد بلوچ کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے فرنٹیئر کور کے اہلکاروں نے میبنہ طور پر اغوا کیا تھا جو جبری گمشدگیوں کے ان واقعات پر مبینہ طور پر ملوث ہے۔
گمشدہ افراد کے رشتہ داروں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے ان افراد کی رہائی کے لیے وسیع پیمانے پر کیے جانے والے احتجاج اور اپیلوں کے باوجود، حکام ان کے اغوا کی شفاف تحقیقات کرنے اور ان جرائم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹرے میں لانے کے لیے میں ناکام رہے ہیں۔



0 comments:

Post a Comment