Welcome to Inqilab Patel's Blog

Students' Resource centre, developed to facilitate students in their studies.

O/A Level Computer Studies with Inqilab Patel

A Highly experienced, well educated and self motivated computer teacher.

Ruknuddin Patel's Web portal

In touch with tomorrow

Inqilab Patel's Mag

Inqilab Patel's Magazine is a Students Resource Centre. It is developed to facilitate students of IT, O / A Level and Business Administration in their studies and to make them literate on current Global Political Issues.

RIC: Ruknuddin Institute of Computer

RIC: Ruknuddin Insitute of Computer (Management, IT) is established in April 15, 1995 by Inqilab Ruknuddin Patel. It is organising Skill Development Programmes (SDP) in the fields of Information Technology and Business Administration.

Friday, 31 July 2015

Sindh E-Centralized College Admission Program 2015-16

Candidates who passed matric examination from Karachi Board and seeking admission in Colleges of Karachi region at http://www.sindheducation.gov.pk/SECCAP

How to Apply?

  1. Download and fill the form from here
  2. Attach a photocopy of your Matric Admit Card/Marks sheet
  3. Submit the form at your nearest College
 

Downloads

  1. Admission Form
  2. List of colleges and last year percentage
  3. Eligibility

Saturday, 18 July 2015

قائد اعظم محمد علی جناح اور نماز عید

عید گاہ میں نماز عید کی تمام تیاریاں مکمل ہیں۔ چاق و چوبند نوکر شاہی انتہائی مستعدی سے نماز عید کے حتمی انتظامات کا جائزہ لے رہے۔ نماز کا وقت قریب آرہا ہے۔ سربراہ مملکت کا انتظار ہے جن کی آمد میں تاخیر ہوتی جارہی ہے۔
ایک چھوٹے افسر نے سربراہ مملکت کے اے ڈی سی کی توجہ وقت کی جانب مبذول کروائی۔ اے ڈی سی صاحب نے سنی ان سنی کر دی۔ چھوٹے افسر نے پھر یاد کرایا کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ ای ڈی سی نے ناگواری سے چھوٹے افسر کی طرف دیکھا اور اسے کہا کہ مولانا کو بتادو کہ جماعت صاحب کے آنے کے بعد ہی ہوگی۔
چھوٹا افسر الٹے قدموں لوٹ گیا اور چند ہی لمحوں میں واپس آکر اے ڈی سی کو بتایا کہ مولانا نے نماز میں تاخیر سے انکار کر دیا ہے۔ اب اے ڈی سی کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات نمایاں ہونے شروع ہوئے۔
ابھی اے ڈی سی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کرے۔ اچانک لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہوا کہ نماز کے لیے صفیں سیدھی کرلی جائیں، لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ چند لمحوں بعد نماز شروع ہوگئی۔ اے ڈی سی پریشانی کے عالم میں مرکزی دروازے کی طرف بڑھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سربراہ مملکت کی سرکاری گاڑی عید گاہ کے مرکزی گیٹ پر موجود تھی وہ فوراً حفاظتی عملے کے انچارج کی جانب بڑھا اور پوچھا سربراہ مملکت کہاں ہیں؟ اس نے آخری صفوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا وہاں۔ سربراہ مملکت آخری صف میں کھڑے نماز ادا کر رہے تھے۔ اے ڈی سی کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔ نماز ختم ہونے کا انتظار کیا۔
قائد اعظم محمّد علی جناح، آخری صفوں میں نماز عید ادا کرتے ہوئے -- فوٹو بشکریہ -- عقیل عبّاس جعفری
قائد اعظم محمّد علی جناح، آخری صفوں میں نماز عید ادا کرتے ہوئے -- فوٹو بشکریہ -- عقیل عبّاس جعفری
نماز ختم ہونے کے بعد سربراہ مملکت کی جانب بڑھا اور ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا سے استدعا کی گئی تھی کہ نماز آپ کے آنے کے بعد شروع کی جائے لیکن وہ نہیں مانے۔ اے ڈی سی کو امید تھی کہ اب مولانا کی خیر نہیں۔ انہیں اس فیصلے کی سزا بھگتنی ہوگی۔ سربراہ مملکت نے ناگواری کا اظہار کرنے کے بجائے مولانا کی تعریف کی کہ انھوں نے ان کا انتظار نہیں کیا۔
ہے نا عجیب بات، لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے جب سربراہ مملکت عوامی اجتماعات میں نماز پڑھتے تھے اور بعد ازاں بہ قول مرحوم PTV کے جو کسی وقت میں واحد ٹی وی چینل ہوا کر تھا، عوام میں گھل مل جاتے تھے. یہ عوام اکثر سادہ لباس میں قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں پر مشتمل ہوتی تھی۔

یہ پاکستان کے قیام کے بعد دوسری عید تھی۔ سربراہ مملکت قائد اعظم محمد علی جناح تھے اور نماز پڑھانے والے مولانا کا نام ظہور الحسن درس تھا۔ بعد میں اسی پاکستان میں ایک انقلابی مولوی --جو گلو بٹ سے خاصے متاثر ہیں-- نے ایک بڑے شریف کے انتظار میں نماز جمعہ 30 منٹ تاخیر سے شروع کی تھی۔ گوکہ اب مولانا صاحب کی ان شریفوں سے نہیں بنتی۔

اختر بلوچ سینیئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

Friday, 17 July 2015

مرکزی رویت ہلال کمیٹی اور مسجد قاسم علی خان

یہ  ایک حقیقت ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے جدید سائنسی حسابات سے اتفاق رکھتے ہیں جبکہ مسجد قاسم علی خان کے فیصلے اکثریتی طور پر سائنسی اعتبار سے ناممکن ہوتے ہیں۔ سائنس کی مدد لیے بغیر چاند نظر آنے یا نہ آنے کا بالکل درست فیصلہ کرنا چونکہ مشکل ہے، اس لیے مسجد قاسم علی خان کے فیصلے اگر غلط نہ بھی ہوں، تب بھی مشتبہ ہوتے ہیں۔
2011 میں مسجد کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ چاند نظر آگیا ہے، اور رمضان المبارک اگست کی پہلی تاریخ سے شروع ہوگا جبکہ اس دن پشاور اور گرد و نواح کے علاقوں میں چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔

فالج کی 5 خاموش علامات


فالج کو جتنا جلد پکڑلیا جائے اس کا علاج اتنا ہی موثر جبکہ دماغی نقصان بہت کم ہوتا ہے— فوٹو کریٹیو کامنزفالج ایسا مرض ہے جس کے دوران دماغ کو نقصان پہنچتا ہے اور جسم کا کوئی حصہ مفلوج ہوجاتا ہے اور مناسب علاج بروقت مل جائے تو اس کے اثرات کو کم از کم کیا جاسکتا ہے تاہم اکثر لوگ اس جان لیوا مرض کی علامات کو دیگر طبی مسائل سمجھ لیتے ہیں اور علاج میں تاخیر ہوجاتی ہے۔
فالج کے دورے کے بعد ہر گزرتے منٹ میں آپ کا دماغ 19 لاکھ خلیات سے محروم ہو رہا ہوتا ہے اور ایک گھنٹے تک علاج کی سہولت میسر نہ آپانے کی صورت میں دماغی عمر میں ساڑھے تین سال کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ علاج ملنے میں جتنی تاخیر ہوگی اتنا ہی بولنے میں مشکلات، یاداشت سے محرومی اور رویے میں تبدیلیوں جیسے مسائل کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
فالج کو جتنا جلد پکڑلیا جائے اتنا ہی اس کا علاج زیادہ موثر طریقے سے ہوپاتا ہے اور دماغ کو ہونے والا نقصان اتنا ہی کم ہوتا ہے۔
فالج کی دو اقسام ہے ایک میں خون کی رگیں بلاک ہوجانے کے نتیجے میں دماغ کو خون کی فراہمی میں کمی ہوتی ہے، دوسری قسم ایسی ہوتی ہے جس میں کسی خون کی شریان سے دماغ میں خون خارج ہونے لگتا ہے۔ ان دونوں اقسام کے فالج کی علامات یکساں ہوتی ہیں اور ہر فرد کے لیے ان سے واقفیت ضروری ہے۔

ایک کی جگہ دو چیزیں نظر آنا

بنیائی کے مسائل جیسے کوئی ایک چیز دو نظر آنا، دھندلا پن یا کسی ایک آنکھ کی بنیائی سے محرومی فالج کی علامات ہوسکتے ہیں مگر بیشتر افراد ان علامات کو بڑھاپے یا تھکاوٹ کا نتیجہ سمجھ لیتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق تھکاوٹ یا بہت زیادہ مطالعے ایک چیز دو نظر آنا بالکل ممکن نہیں، درحقیقت خون کی ایک بلاک شریان آنکھوں کو درکار آکسیجن کی مقدار کو کم کردیتی ہے جس کے نتیجے میں بنیائی کے مسائل کا باعث بنتے ہیں اور اس دوران فالج کی دیگر علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔

ہاتھ پیروں کا سن ہوجانا

اگر آپ دوپہر کو کچھ دیر کی نیند لے کر اٹھتے ہیں اور آپ کے ہاتھ یا پیر سن یا بے حس ہورہے ہو تو آسانی سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ یہ اعصاب دب جانے کا نتیجہ ہے۔ تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کا ہاتھ اچانک بے حس یا کمزور ہوجائے تو یہ کیفیت چند منٹوں میں دور نہ ہو تو فوری طبی امداد کے لیے رابطہ کیا جانا چاہئے۔ ان کے بقول شریانوں میں ریڑھ کی ہڈی سے دماغ تک خون کی روانی میں کمی کے نتیجے میں جسم کا ایک حس سن یا کمزور ہو جاتا ہے۔

بولنے میں مشکلات

کچھ ادویات جیسے درد کش گولیوں کے استعمال کے بعد بولنے میں ہکلاہٹ یا مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور لوگ سوچتے ہیں یہ ان کی دوا کا اثر ہے مگر یہ فالج کی علامت بھی ہوسکتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق اگر اس سے پہلے یہی دوا استعمال کرنے پر آپ کو کسی قسم کے سائیڈ ایفیکٹ کا سامنا نہ ہوا تو پھر یہ فالج کی ایک علامت ہوسکتا ہے او رآپ کو فوری طور پر طبی امداد کے لیے رابطہ کرنا چاہئے۔

سوچنے میں مشکل

جب لوگوں کو درست الفاظ کے انتخاب یا کسی چیز کے بارے میں پوری توجہ سے سوچنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو اکثر وہ اسے تھکن کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ مگر اچانک دماغی صلاحیتوں میں کمی فالج کی عام علامت میں سے ایک ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ایک لمحے کے لیے تو سوچنے میں مشکل کا سامنا کسی بھی فرد کو ہوسکتا ہے مگر اس کا دورانیہ اگر بڑھ جائے تو یہ باعث تشویش ہے۔ ان کے بقول کئی بار تو مریضوں کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کیا چیز غلط ہے کیونکہ ان کا دماغ کام نہیں کررہا ہوتا اور ان کے سوچنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

آدھے سر کا درد

ہوسکا ہے کہ یہ محض آدھے سر کا درد ہی ہو مگر یہ تکلیف آپ کو پہلے سے متاثر نہ کرتی رہی ہو تو یہ فالج کی علامت بھی ہوسکتا ہے۔ طبی ماہرین بتاتے ہیں کہ آدھے سر کے درد یا مائیگرین میں فالج بھی چھپا ہوسکتا ہے کیونکہ ان دونوں امراض میں دماغی علامات ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ ماہرین کے بقول آدھے سر کے درد کے شکار افراد کو اس کا علاج فالج کی طرح ہی کرانا چاہئے اور ڈاکٹروں سے مدد لینی چاہئے۔

Monday, 13 July 2015

سعودی سپر کمپیوٹر دنیا میں ساتویں نمبر پر












تاریخ میں پہلی بار مشرق ِوسطیٰ میں بننے والا ایک سپر کمپیوٹر دنیا کے دس طاقتور ترین کمپیوٹروں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
شاہین ٹو نامی یہ کمپیوٹر کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں موجود ہے۔ اس کمپیوٹر میں کرے XC40 نامی پروسیسر نصب ہے اور یہ دنیا کا ساتواں طاقتور ترین کمپیوٹر ہے۔
اس بات کی تصدیق ’ٹاپ فائیو ہنڈرڈ‘ نامی ادارے نے کی جو دنیا بھر میں سپر کمپیوٹروں کی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے۔
چین کے ’تائن ہے2‘ نامی سپر کمپیوٹر نے پہلی پوزیشن برقرار رکھی ہے۔
شاہین ٹو کے اعزاز کا اعلان ’ٹاپ فائیو ہنڈرڈ‘ نے اپنی درجہ بندی میں کیا جو سال میں دو بار شائع ہوتی ہے۔
شاہین ٹو کی رفتار 5.536 پیٹا فلاپ ہے۔
کنگ عبداللہ یونیورسٹی نے اس سسٹم کی خریداری، تنصیب اور چلانے پر آٹھ کروڑ ڈالر کی رقم خرچ کی ہے۔ اس سے پہلے اس کی جگہ استعمال ہونے والا کمپیوٹر اس سے 25 گنا کم طاقت ور تھا۔

null
یہ سپر کمپیوٹر دو لاکھ پروسیسرز کا استعمال کرتا ہے، جو چھ ہزار سے زائد نوڈز کے ذریعے آپس میں منسلک ہیں۔ اس میں 17.6 پیٹا بائٹ سٹوریج کی گنجائش ہے اور اس کی مرکزی میموری 790 ٹیرا بائٹ پر مشتمل ہے۔
اس کے مقابلے میں اول نمبر پر آنے والے چینی کمپیوٹر میں 16 ہزار نوڈز ہیں اور اس کی پیٹا فلاپ کی صلاحیت 33.86 ہے۔
ایک پیٹا فلاپ کی رفتار تقریباً چار کھرب کیلکیولیشنز فی سیکنڈ ہے، جبکہ یہی کام اگر ایک انسان کرے تو اسے 32 ہزار سال کا عرصہ لگے گا۔
اس مشین کو سعودی عرب میں کرۂ ہوائی کی حرکیات، ہوائی جہازوں کے انجنوں کی پیدا کردہ ٹربیولنس اور قابلِ تجدید توانائی پر تحقیق کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
کنگ عبداللہ یونیورسٹی کےصنعتی شراکت دار اس مشین کو معدنیات کی کھوج، معدنی ایندھن اور خام مال کی پراسیسنگ میں مدد کے لیے بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
’ٹاپ فائیو ہنڈرڈ‘ نے ایک بلاگ میں کہا کہ دنیا بھر میں کمپیوٹروں کی طاقت میں حالیہ عرصے میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس کی وجہ سے گذشتہ کچھ عرصے میں نئے سپر کمپیوٹر کم ہی دیکھنے کو ملے ہیں۔ دس بہترین کمپیوٹروں کی فہرست میں زیادہ تر کا شمار ان کمپیوٹروں میں ہوتا ہے جو 2011 یا 2012 میں بنے تھے۔

Friday, 3 July 2015

’فوجی جنھیں تاریخ نے یتیم کر دیا‘

یورپ جنگ عظیم اول میں اپنی طرف سے لڑنے اور جانیں قربان کرنے والے نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے فوجیوں کو تو یاد بھی رکھتا ہے بلکہ ہر برس ان کے لیے تقاریب بھی منعقد کرتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اسی جنگ میں سلطنتِ برطانیہ کے لیے جانیں دینے والے 74 ہزار ہندوستانی سپاہیوں کو شاذ و نادر ہی یاد کیا جاتا ہے؟
تاج برطانیہ نے اِن سپاہیوں کو ہندوستان کی آزادی کے جھوٹے وعدے کر کے یورپ کے انتہائی سرد موسم کے میدانِ جنگ میں جھونکا تھا اور جنگ کے اختتام پر یہ تمام وعدے فراموش کر دیے گئے۔
پہلی جنگِ عظیم کو اُس وقت صرف ’عظیم جنگ‘ کہا جاتا تھا جو تمام جنگوں کے خاتمے کے لیے لڑی جا رہی تھی۔ لیکن ستم ظریفی یہ تھی کہ اِس کو جنگ عظیم اول کا نام اس لیے ملا کہ صرف 20 برس بعد ہی یورپ میں اِس سے کہیں زیادہ ہلاکت خیز ایک اور جنگ چھڑ گئی تھی۔
جنگ عظیم اول میں لڑنے والے سپاہیوں کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ بہت جلد ایک اور جنگ بھی چھڑ جانی ہے۔
null 
جنگ عظیم اول نے یورپ کے لاکھوں خوبرو جوانوں کو وقت سے پہلے ہی قبر کی راہ دکھا دی تھی۔ نہ جانے اِن میں کتنے باصلاحیت فنکار، شاعر ، کھلاڑی اور غیرمعمولی ذہین لوگ بھی ہوں گے جو یورپ کے روایتی اور تاریخی باہمی قضیوں کی نذر ہوگئے۔
لیکن 13 لاکھ ایسے بھی تھے جو ہزارہا میل دور سے برطانیہ اور یورپ کے دفاع میں لڑنے ضرور آئے تھے لیکن جن کا یورپ کی اِن باہمی دشمنیوں اور نفرتوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اگر یورپ کا ساتھ دینے والے آسٹریلوی اور جنوبی افریقی سپاہیوں پر نظمیں اور کتابیں لکھی گئیں اور ’گیلی پولی‘ جیسی شاہکار فلمیں بنیں تو ہندوستان سے گئے اِن بھولے بسرے سپاہیوں کا اب بہت کم ذکر ہوتا ہے۔
یورپ کے لیے یورپ میں جان دینے والے اِن 74187 سپاہیوں کا تذکرہ جنگ عظیم اول پر یورپی کہانیوں میں یوں تو ہوتا ہی نہیں ہے یا کہیں کسی کونے کھدرے میں ضمنی طور پر۔
null 
 
یورپ، بحیرۂ روم کے ملکوں، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی اور مشرقی افریقہ کے کئی محاذوں پر ہندوستانی دستوں کے بریگیڈ اور ڈویژن تعینات تھے اور اِس جنگ میں خندقوں کی ہولناک دو بدو لڑائیوں کا اولین شکار بننے والوں میں بھی ہندوستانی سپاہی شامل تھے۔
سنہ 1914 میں پیرس کے محاذ پر یہ ہندوستانی جوان ہی تھے جنھوں نے جرمن دستوں کی پیش قدمی روکی تھی جس کے فوری بعد بھرپور جنگ چھڑ گئی تھی حالانکہ اُس وقت برطانوی حکام خود اپنی فوج کی بھرتی اور تربیت کے ہی مرحلے میں تھے۔
بے مثال بہادری سے لڑتے ہوئے سینکڑوں ہندوستانی سپاہی نیووشپیلے کی بے مقصد لڑائی میں مارے گئے تھے جبکہ ونسٹن چرچل کی احمقانہ پالیسی کے باعث چھڑنے والی گیلی پولی کی جنگ میں ایک ہزار سے زیادہ ہندوستانی سپاہی ہلاک ہوئے تھے۔
 null
میسو پوٹیمیا، جو موجودہ عراق اور آس پاس کا علاقہ ہے، وہاں جرمنی کے اتحادی عثمانی دستوں کے مقابل لڑنے والوں میں سات لاکھ ہندوستانی فوجی بھی شامل تھے۔ اِن میں ہزاروں مسلمان بھی تھے جنہوں نے تاج برطانیہ کے دفاع میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے۔
ان فوجیوں میں سب سے تکلیف دہ تجربات اُن کے تھے جو یورپ کے محاذوں میں خندقوں میں لڑ رہے تھے۔ فرانس اور بیلجیئم کے محاذوں پر لڑنے والے ہندوستانی سپاہیوں نے اپنے دور دراز گاؤں اور دیہات میں اپنے پیاروں کو جو خط بھیجے، اُن کے لفظ لفظ سے سماجی تنہائی اور المیے پھوٹتے محسوس ہوتے ہیں۔
ایک خط کے الفاظ ہیں کہ ’شیل یہاں مون سون کی بارش کی طرح برس رہے ہیں‘ جبکہ ایک اور خط کی تحریر ہے کہ ’میدانوں میں لاشیں ایسے بکھری پڑی ہیں جیسے مکئی کی کٹی ہوئی فصل کا ڈھیر۔‘
 null
یہ تمام لوگ یقیناً ہیرو تھے جو اجنبی میدانوں میں ایک ایسے دشمن سے لڑ رہے تھے جس کے بارے میں انھیں کچھ پتہ نہیں تھا۔ وہ ایسے سخت اور سرد موسم میں دھکیل دیے گئے تھے جس کے نہ تو وہ عادی تھے اور نہ ہی جس کے لیے تیار۔ یہ لوگ صبح و شام کسی دوسرے کے جھوٹے وقار کے لیے جانیں قربان کر رہے تھے۔
اور اس سب باوجود جنگ کے اختتام پر فراموش کر دیا جانا ان لوگوں کا نصیب بنا۔ سلطنت برطانیہ جس کے لیے اِن لوگوں نے اپنی جانوں کی بازی لگائی، اُس نے انھیں فراموش کر دیا اور جہاں سے یہ لوگ آئے تھے، یعنی ان کا اپنا وطن، اُس نے بھی اِنھیں نظرانداز کر دیا۔
شاید ایک وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ خود اپنی مادرِ وطن کے لیے نہیں لڑ رہے تھے۔ اِن میں سے کسی کو بھی زبردستی بھرتی نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ پیشہ ور سپاہی تھے۔ یہ اُسی تاج برطانیہ کے لیے لڑ رہے تھے جو خود اُن کے اپنے ہم وطنوں کا استحصال کر رہا تھا۔
برطانیہ نے اس جنگ کے لیے ہندوستان سے فوجی اور بڑے پیمانے پر وسائل حاصل کیے۔ اِن میں خوراک کی بڑی مقدار، نقدی اور اسلحہ گولہ بارود وغیرہ شامل تھا۔ یہ سب کچھ یا تو ہندوستانیوں پر ٹیکس لگا کر لیا گیا یا پھر برائے نام خودمختار ریاستوں اور رجواڑوں سے۔
 null
اور اِس کی عوض برطانوی حکومت نے بہت ہی غیرسنجیدگی سے ہندوستان کو جنگ کے خاتمے پر خودمختاری دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اگر برطانوی حکومت اپنے اِس عہد کی پاسداری کرتی تو شاید جنگ عظیم اول میں اُس کی طرف سے لڑنے والے سپاہیوں کی قربانیاں آزادی کے لیے کچھ کردار کے طور پر قابلِ قبول ہوتیں۔
لیکن برطانیہ نے اپنے وعدے کا پاس نہ رکھا۔ گاندھی جی جنوبی افریقہ سے ہمیشہ کے لیے اپنے وطن ہندوستان واپس آگئے تھے۔ انھوں نے جنوبی افریقہ میں بھی جنگِ بوئر میں برطانیہ کی حمایت کی تھی اور جنگ عظیم اول میں بھی وہ برطانیہ کے حمایتی تھے۔
نوبیل انعام پانے والے عظیم شاعر ٹیگور قوم پرستی کو جلی کٹی سناتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ’ہم بھوکے ننگے، چیتھڑوں میں لپٹے، پھٹے پرانے کپڑے پہننے والے مشرقی لوگ پوری بنی نوع انسان کے لیے آزادی جیتیں گے۔‘
اور جنگ کے دوران یہ بھی لکھا کہ ’ہماری زبان میں تو قوم کے لیے کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔‘
 null
اِس جنگ کے دوران ہندوستان انفلوئنزا کی ایک جان لیوا وبا کا شکار تھا۔ اس کے باوجود جنگ لڑنے کے لیے پورے ملک پر بھاری ٹیکس لگائے گئے جس سے افرطِ زر بھی بڑھ گئی تھی۔ ساتھ ساتھ جنگ کے باعث تجارت کو بھی شدید دھکا لگا اور بہت زیادہ معاشی نقصان ہوا۔ لیکن قوم پرستوں نے برطانوی وعدوں سے یہ سمجھا کہ کہ جنگ کے اختتام پر ہندوستان کو بھی دولت مشترکہ کے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا جیسے سفید فام ملکوں جیسی خودمختاری مل جائے گی۔
لیکن یہاں معاملہ مختلف تھا۔
جنگ میں فتح کے بعد خودمختاری کے بجائے ہندوستانیوں کو اُن کی قربانیوں کا صلہ رولٹ ایکٹ کی صورت میں دیا گیا جس میں وائسرائے کی انتظامیہ کو تاجِ برطانیہ کے خلاف سرگرمیوں کو بغاوت کے نام پر روکنے کے وسیع اختیارات دیے گئے۔ سینسرشپ لگا دی گئی، کسی کو بھی بغاوت کے شبے میں بغیر وارنٹ اور بغیر مقدمہ قید کرنے کا قانون بنا اور سیاسی مخالفین کو بغیر کسی الزام قید کر دیا گیا۔
ان کالے قوانین کے خلاف عوامی احتجاج کو بے رحمی سے کچلا گیا اور اِس کی بدترین مثال جلیانوالہ باغ کا قتلِ عام تھا جہاں اپریل 1919 میں جنرل ریجینالڈ ڈائر کے حکم پر فوجیوں نے نہتے عوام پر فائر کھول دیا اور ڈیڑھ ہزار لوگوں کو مار ڈالا۔
برطانیہ جنرل ڈائر کو ہیرو قرار دیتا ہے۔ اُس کی خدمات پر اُسے ملنے والا انعام و اکرام دراصل برطانوی سامراج اور اُس کی ہندوستانی رعایا کے درمیان رشتوں کے خاتمے کا عنوان بن گیا۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے ’برطانوی رعایا کی بے بسی اور بے چارگی کے اظہار کے لیے‘ خود کو ملنے والا نائٹ کا اعزاز واپس کر دیا۔ بقول اُن کے انھیں ’ذلت کے تناظر میں ملنے والی عزت و توقیر قبول نہیں تھی۔‘
 null
جس جنگ میں ہندوستان نے اتنا کچھ قربان کیا، اُس کے اختتام پر برطانوی خیانت سے قوم پرستوں نے صاف محسوس کیا کہ اِس جنگ میں شریک ہونے والے سپاہیوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ وہ صرف اپنے غیرملکی آقاؤں کی حدمت کے لیے لڑنے گئے تھے۔ اپنے سامراجی آقاؤں کی خاطر جنگ میں جان کھونا یا معذور ہو جانا ایک پیشہ ورانہ خطرہ تو ہو سکتا تھا، یہ چیز مادرِ وطن کی خدمت کے دائرے میں نہیں آ سکتی۔
قوم پرستوں نے بھی اسی طرح سوچا اور اپنے ہم وطنوں کی قربانیوں کو بھول گئے۔ اسی لیے جب سنہ 1964 میں جنگِ عظیم اول کی گولڈن جوبلی ہوئی تو یورپ میں بھی اِن ہندوستانی سپاہیوں کا شاذونادر ہی کوئی ذکر ہوا اور انڈیا میں تو وہ بھی نہیں تھا۔
یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ برطانوی راج سے آزاد ہونے والے ہندوستان میں اِسی راج کے لیے جانیں قربان کرنے والے سپاہی شرم کا باعث تھے اور اسی لیے انھیں کسی نے یاد نہیں رکھا۔
لیکن برطانوی حکومت نے ضرور ان سپاہیوں کی یاد میں سنہ 1931 میں دلی میں انڈیا گیٹ کی یادگار بنائی تھی۔ آج یہ جگہ کافی مقبول ہے اور ہزاروں لوگ یہاں جاتے ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ دراصل پہلی جنگِ عظیم میں مرنے والے ہندوستانی سپاہیوں کی یادگار ہے۔
جنگوں کی کسی قومی یادگار کی غیرموجودگی میں بہت سے لوگوں کے لیے یہی ایک ایسا مقام جہاں حالیہ جنگوں میں مرنے والوں کو بھی یاد رکھا جاسکتا ہے۔ چین اور پاکستان کے ساتھ جنگ کی یاد میں یہاں کھڑے ہوکر سر جھکانے والے شاید ہی کسی شخص کے ذہن میں جنگِ عظیم اول کے اِن سپاہیوں کا خیال آتا ہو۔
لیکن اِس جنگ کی صد سالہ تقریبات سوچ کو نئی مہمیز دے رہی ہیں۔
یورپ اور مشرق وسطیٰ کے محاذوں سے ہندوستانیوں سپاہیوں کی اُس وقت کی بڑی غیرمعمولی تصاویر ملی ہیں اور انٹرنیٹ پر ان تصویروں سے اچ وست کے واقعات کو نئی زندگی ملی ہے۔
 null
ان تصویروں میں اِن خوبرو جوانوں کو کہیں اجنبی محاذوں پر جاتے، کہیں اپنے زخموں کی مرہم پٹی کرتے ہوئے دیکھ کر ناممکن ہے کہ آپ آبدیدہ نہ ہو جائیں۔ ایک تصویر میں تو پگڑی باندھے داڑھی والا ایک گھڑسوار ہندوستانی فوجی میسو پوٹیمیا میں ایک دہقان لڑکی کو اپنا راشن دے رہا ہے۔
بہت سے ہندوستانیوں کے لیے اب برطانوی راج مخالف جذبات پر تجسس غالب آ چکا ہے اور آہستہ آہستہ جنگِ عظیم اول کے ہندوستانی فوجیوں سے وابستہ انسانی پہلو پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔
ان سپاہیوں کے لکھے ہوئے بعض خطوط میں غیرمعمولی حقیقت پسندی بھی ملتی ہے اور بعض میں اپنے ہم وطنوں سے ایک بے مقصد جنگ کے لیے فوج میں شمولیت کی حماقت نہ کرنے کی درخواست بھی کی گئی ہے۔ کچھ خطوط میں ہندوستانی سپاہیوں کے لیے فرانسیسی خواتین کی گرمجوشی کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ لیکن اِس سب کے باوجود اِن سپاہیوں پر بہت کم کتابیں یا نظمیں لکھی گئی ہیں۔