Saturday 18 July 2015

قائد اعظم محمد علی جناح اور نماز عید

عید گاہ میں نماز عید کی تمام تیاریاں مکمل ہیں۔ چاق و چوبند نوکر شاہی انتہائی مستعدی سے نماز عید کے حتمی انتظامات کا جائزہ لے رہے۔ نماز کا وقت قریب آرہا ہے۔ سربراہ مملکت کا انتظار ہے جن کی آمد میں تاخیر ہوتی جارہی ہے۔
ایک چھوٹے افسر نے سربراہ مملکت کے اے ڈی سی کی توجہ وقت کی جانب مبذول کروائی۔ اے ڈی سی صاحب نے سنی ان سنی کر دی۔ چھوٹے افسر نے پھر یاد کرایا کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ ای ڈی سی نے ناگواری سے چھوٹے افسر کی طرف دیکھا اور اسے کہا کہ مولانا کو بتادو کہ جماعت صاحب کے آنے کے بعد ہی ہوگی۔
چھوٹا افسر الٹے قدموں لوٹ گیا اور چند ہی لمحوں میں واپس آکر اے ڈی سی کو بتایا کہ مولانا نے نماز میں تاخیر سے انکار کر دیا ہے۔ اب اے ڈی سی کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات نمایاں ہونے شروع ہوئے۔
ابھی اے ڈی سی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کرے۔ اچانک لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہوا کہ نماز کے لیے صفیں سیدھی کرلی جائیں، لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ چند لمحوں بعد نماز شروع ہوگئی۔ اے ڈی سی پریشانی کے عالم میں مرکزی دروازے کی طرف بڑھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سربراہ مملکت کی سرکاری گاڑی عید گاہ کے مرکزی گیٹ پر موجود تھی وہ فوراً حفاظتی عملے کے انچارج کی جانب بڑھا اور پوچھا سربراہ مملکت کہاں ہیں؟ اس نے آخری صفوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا وہاں۔ سربراہ مملکت آخری صف میں کھڑے نماز ادا کر رہے تھے۔ اے ڈی سی کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔ نماز ختم ہونے کا انتظار کیا۔
قائد اعظم محمّد علی جناح، آخری صفوں میں نماز عید ادا کرتے ہوئے -- فوٹو بشکریہ -- عقیل عبّاس جعفری
قائد اعظم محمّد علی جناح، آخری صفوں میں نماز عید ادا کرتے ہوئے -- فوٹو بشکریہ -- عقیل عبّاس جعفری
نماز ختم ہونے کے بعد سربراہ مملکت کی جانب بڑھا اور ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا سے استدعا کی گئی تھی کہ نماز آپ کے آنے کے بعد شروع کی جائے لیکن وہ نہیں مانے۔ اے ڈی سی کو امید تھی کہ اب مولانا کی خیر نہیں۔ انہیں اس فیصلے کی سزا بھگتنی ہوگی۔ سربراہ مملکت نے ناگواری کا اظہار کرنے کے بجائے مولانا کی تعریف کی کہ انھوں نے ان کا انتظار نہیں کیا۔
ہے نا عجیب بات، لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے جب سربراہ مملکت عوامی اجتماعات میں نماز پڑھتے تھے اور بعد ازاں بہ قول مرحوم PTV کے جو کسی وقت میں واحد ٹی وی چینل ہوا کر تھا، عوام میں گھل مل جاتے تھے. یہ عوام اکثر سادہ لباس میں قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں پر مشتمل ہوتی تھی۔

یہ پاکستان کے قیام کے بعد دوسری عید تھی۔ سربراہ مملکت قائد اعظم محمد علی جناح تھے اور نماز پڑھانے والے مولانا کا نام ظہور الحسن درس تھا۔ بعد میں اسی پاکستان میں ایک انقلابی مولوی --جو گلو بٹ سے خاصے متاثر ہیں-- نے ایک بڑے شریف کے انتظار میں نماز جمعہ 30 منٹ تاخیر سے شروع کی تھی۔ گوکہ اب مولانا صاحب کی ان شریفوں سے نہیں بنتی۔

اختر بلوچ سینیئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

0 comments:

Post a Comment