Tuesday 1 July 2014

کیچ اپ، کوک اور حافظ سعی

اینڈریو نارتھ

نامہ نگار جنوبی ایشیا
امریکہ نے اس شخص کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر رکھی ہے اور اس کے تمام امریکی اثاثے منجمند کرنے کا حکم دے دیا ہے، لیکن جہاں تک حافظ سعید کا تعلق ہے تو لگتا ہے کہ امریکی کمپنیوں سے ان کو تو کوئی مسئلہ نہیں۔

جب ہم ان کے دو منزلہ مدرسے میں قائم دفتر میں بات چیت کے لیے بیٹھے تو میری مہمان نوازی کے لیے ان کا عملہ جو چیزیں لایا اس میں امریکی کوکا کولا، ہائینز کی کیچ اپ اور چکن ڈرم سٹکس سے بھری ہوئی پلیٹ شامل تھی
دیوار پر لگے ہوئے فلیٹ سکرین ٹی وی پر بھی جو چینل چل رہا تھا وہ ’سی این این‘ تھا اور جب ان کے ایک نائب نے چینل بدلا بھی تو اس نے ’بی بی سی‘ لگا دیا۔

دفتر سے ملحقہ چھوٹی سی مسجد میں لڑکے ہلکے ہلکے لہرا کر قرآن پڑھ رہے تھے۔

جب حافظ سعید مجھ سے ملنے اپنے دفتر پہنچے تو ان کے ساتھ کچھ دوسرے افراد بھی تھے، لیکن مجھے ان کی حفاظت پر معمور کوئی چاک و چوبند سکیورٹی اہلکار نظر نہیں آئے۔ اور اگر اس مدرسے میں کوئی اسلحہ تھا بھی تو وہ بھی سامنے نظر نہیں آیا۔

حافظ سعید کے پاس بی بی سی سے بات چیت کرنے کے لیے بھی خاصا وقت تھا اور اس دوران وہ ملاقات کے لیے آنے والے کئی معتقدین سے بھی ملتے رہے۔


امریکیوں کا کہنا ہے کہ جماعت الدعوہ کا نام محض دکھاوے کے لیے ہے

ایک بات تو واضح ہے اور وہ یہ کہ امریکہ کی جانب سے سنہ 2008 کے ممبئی حملوں کا ماسٹر مائینڈ قرار دیے جانے اور اپنی گرفتاری پر انعام رکھے جانے کے دو سال بعد بھی حافظ سعید کو اپنے آبائی شہر لاہور میں گرفتاری کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

’پاکستان کے لوگ مجھے جانتے ہیں اور مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ اسی لیے ابھی تک کسی نے امریکی حکام سے میرے سر کی قیمت وصول کرنے کے لیے رابطہ نہیں کیا۔‘

حافظ سعید اس الزام سے انکار کرتے ہیں کہ ممبئی حملوں میں ان کوئی ہاتھ تھا۔ ان کے بقول وہ اپنی تنظیم جماعت الدعوۃ کے ذریعے صرف خیراتی کام کرتے ہیں۔
سارا مسئلہ نام کا ہے

لیکن امریکیوں کا کہنا ہے کہ جماعت الدعوۃ کا نام محض دکھاوے کے لیے ہے جبکہ اس تنظیم کے پیچھے اصل میں عسکریت پسند گروپ لشکرِ طیبہ چھپا ہوا ہے جس نے بھارت اور امریکہ کے بقول، پاکستان کی رضامندی سے ممبئی میں تین دن تک تابڑ توڑ حملے کیے۔

اگرچہ حافظ سعید کا کہنا ہے کہ انھوں نے لشکرِ طیبہ کےساتھ تعلق توڑ لیا ہے، تاہم زیادہ تر لوگ یہی کہتے ہیں کہ حافظ سعید ہی وہ شخص ہیں جنھوں نے 25 سال پہلے پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے کشمیر میں بھارت کی موجودگی کے خلاف لڑائی کے لیے لشکر طیبہ بنائی تھی۔ امریکہ کہتا ہے کہ تنظیموں اور ان کے بدلتے ہوئے ناموں کا ہیر پھیر دانستہ ہے اور اس کا مقصد لشکرِ طیبہ کو امریکی پابندیوں سے بچائے رکھنا ہے۔



’پابندیاں لگانے کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں بھارت کی مدد چاہئیے۔‘

مدرسے سے ملحقہ چھوٹے سے سرسبز باغ میں بیٹھے ہوئے حافظ سعید نے مجھے بتایا کہ امریکہ کے پابندیاں لگانے کی وجہ یہ ہے کہ ’امریکہ کو افغانستان میں بھارت کی مدد چاہئیے۔‘

زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کی جانب سے حالیہ پابندیاں محض علامتی ہیں۔ لیکن اس کا کیا کِیا جائے کہ حافظ سعید خود بھی اسلامی شدت پسندوں کے بارے میں پاکستان کی درد انگیز اور مبہم پالیسی کی علامت بن چکے ہیں۔
جھوٹ موٹ کی جنگ

حافظ سعید شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی کارروائی کے مدح سرا ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ضرب عضب کے دوران ’صرف ان غیر ملکیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جنھیں پاکستان لایا ہی اس مقصد کے لیے گیا تھا کہ وہ یہاں بم دھماکے کریں اور تشدد پھیلائیں۔‘

لیکن پاکستان میں یہ خبریں پہلے سے ہی گردش میں ہیں کہ تمام اقسام کے کئی عسکریت پسندوں کو فوجی کارروائی سے پہلے ہی علاقے سے نکل جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ پاکستانیوں کو شبہہ ہے کہ ان کی فوج ان عسکری گروہوں کو واقعی خیرباد کہہ رہی ہے جنہیں وہ بھارت کے خلاف استعمال کے لیے بچائے رکھتی رہی ہے۔

لیکن حافظ سعید کا اصرار ہے کہ پاکستان کو گذشتہ برسوں میں جن مسائل کا سامنا رہا ہے ’وہ تمام کے تمام امریکہ اور نیٹو‘ کے پیدا کردہ ہیں۔امریکہ اور نیٹو پاکستان کو خطے میں اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور انھوں نے بھارت کو کھلی چھٹی دی ہے کہ وہ بلوچستان میں ’پراکسی جنگ‘ شروع کر دے۔

یہ کہنے کے بعد وہ شخص جس کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر ہے، آرام سے اٹھا اور عصر کی نماز کے لیے چلا گیا۔

0 comments:

Post a Comment