Saturday 5 July 2014

فلسطینی نوجوان کو زندہ جلایا گیا تھا

 فلسطینی اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ یروشلم میں ہلاک ہونے والے فلسطینی نوجوان ابوخضیر کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اسے ’زندہ جلایا‘ گیا تھا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نوجوان ابوخضیر کی موت کی وجہ آگ سے جلنا بتائی گئی ہے۔

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ 16 سالہ نوجوان ابوخضیر کی موت کن حالات میں ہوئی ابھی یہ واضح نہیں ہے۔

ابوخضیر کی موت تین اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا اور ہلاکت کے بعد ہوئی ہے۔

ابوخضیر کا پوسٹ مارٹم اسرائیلی ڈاکٹروں نے کیا ہے۔

فلسطینی سرکاری خبررساں ایجنسی وفا نے اٹارنی جنرل کے حوالے سے کہا ہے ابو خضیر کی سانس کی نالی سے راکھ ملی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں زندہ جلایا گیا ہے۔
اطلاع کے مطابق محمد ابو خضیر 90 فیصد جھلس گئے تھے اور ان کے سر میں بھی چوٹ آئی تھی۔

پوسٹ مارٹم کی یہ رپورٹ سرکاری طور پر عام نہیں کی گئی ہے۔

خضیر کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ خضیر کا قتل تین اسرائیلی نوجوانوں کے قتل کا بدلہ تھا۔

خصیر کی تدفین سے پہلے اور بعد میں مشرقی یروشلم میں سینکڑوں فلسطینی نوجوانوں کا اسرائیلی پولیس کے ساتھ تصادم ہوا۔

یہ جھڑپیں رات بھر جاری رہیں۔ پولیس نے اس دوران اشکبار گولوں کا استعمال کیا اور 20 سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔

حالیہ دنوں میں غزہ سے جنوبی اسرائیل میں متعدد راکٹ فائر کیے گئے جس کے جواب میں اسرائیل نے فضائی بمباری کی۔

بی بی سی کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق مصری عسکری خفیہ ایجنسی کے حکام اسرائیل اور غزہ پٹی میں حماس کے درمیان امن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حماس کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ حماس کے ساتھ ’قریبی رابطوں‘ کی وجہ سے مصری انٹیلی جنس حکام اسرائیل اور حماس کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کامیابی کی صورت میں دونوں کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ حماس اسرائیل کی طرف سے فضائی حملے بند ہونے کی یقین دہانی کی شرط پر راکٹ حملے بند کرنے کے لیے تیار ہے۔

یروشلم میں بی بی سی کے کیون کنولی کہتے ہیں کہ کشیدگی کی صورت میں مصری انٹیلی جنس حکام اسرائیل اور حماس کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہیں۔

غزہ شہر میں بی بی سی کے نامہ نگار رشدی عبدالعوف کہتے ہیں کہ لگتا ہے کہ حماس اور مصر کے درمیان رابطوں کی وجہ سے حالات قابو میں آ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جنوبی اسرائیل میں راکٹوں کے حملے بھی کم ہو گئے ہیں اور اسرائیل نے غزہ میں کوئی تازہ بمباری بھی نہیں کی ہے۔
اس سے پہلے فلسطین کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے بعد اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے ساتھ اپنی سرحد پر اضافی فوج تعینات کر دی تھی۔

اسرائیل کا کہنا تھا کہ غزہ سے کیے جانے والے فلسطینی شدت پسندوں کے راکٹ حملوں کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا۔

یاد رہے کہ حال ہی میں تین مغوی اسرائیلی نوجوانوں کی لاشیں برآمد ہونے کے بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ حماس کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی جبکہ حماس کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف کارروائی سے ’دوزخ کے دروازے کھل جائیں گے۔

0 comments:

Post a Comment