Saturday, 12 July 2014

کشمیر سے اقوام متحدہ بے دخل؟

شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دہلی
کیا بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اقوام متحدہ کو کشمیر سے بے دخل کر رہی ہے؟ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ نئی سرکار نے یہ عمل شروع کر دیا ہے۔

بھارت کی حکومت نے دہلی میں واقع کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کے فوجی مشاہدین کے مشن سے کہا ہے کہ وہ اس سرکاری بنگلے کو خالی کر دے جس میں اس کا دفتر واقع ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبرالدین نے گذشتہ روز ایک نیوز کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’ہمارا یہ موقف رہا ہے کہ اقوام متحدہ کے مشاہدین کا مشن اپنی معنویت اور اپنا جواز کھو چکا ہے۔ میں اس کی تصدیق کرتا ہوں کہ حکومت نے اقوام متحدہ سے وہ سرکاری بنگلہ خالی کرنے کے لیے کہا ہے جو حکومت نے انھیں مفت فراہم کر رکھا تھا۔‘

مبصرین کا خیال ہے کہ کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ کے مشاہدین کا کردار پہلے ہی بہت حد تک محدود ہو چکا تھا۔ وویکا نند فاؤنڈیشن کے سوشانت سرین کے خیال میں مشن سے دفتر خالی کرانے کامعاملہ بہت اہم ہے۔ ’یہ فیصلہ غلطی سے نہیں آیا ہے۔ یہ نئی سرکار کا فیصلہ ہے جو ایک سخت پیغام دینا چاہتی ہے کہ کشمیر کا سوال کوئی بین الاقوامی تنازع نہیں ہے۔‘

اقوام متحدہ کے فوجی مشاہدین کا مشن 1949 سے بھارت میں موجود ہے۔ اس کا دفتر دہلی کے علاوہ جموں و کشمیر میں بھی ہے۔ کشمیر امور کے تجزیہ کار انل آنند کہتے ہیں کہ دہلی کے بعد کشمیر کا دفتر بھی خالی کرایا جا سکتا ہے۔ ان کے خیال میں ’اس کا سب سے زیادہ اثر علیحدگی پسندوں پر پڑے گا کیونکہ وہ کشمیر کے ہر چھوٹے بڑے معاملے پر اقوام متحدہ کے مشن کو عرضداشت دیا کرتے تھے۔‘
علیحدگی پسندوں کی طرف سے ابھی باضابطہ کوئی رد عمل سامنے نہیں آيا ہے لیکن بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی تجزیہ کار اور سول سوسائٹی کی ایک سرکردہ رکن پروفیسر حمیدہ نعیم نے دہلی میں اقوام متحدہ سے سرکاری عمارت خالی کرانے کو ایک خطرناک قدم قرار دیا ہے۔

ان کے خیال میں بھارت کشمیر کے تنازعے کی نوعیت بدلنا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا: ’اقوام متحدہ کے اس مشن کا یہاں ہونا ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ کشمیرایک بین لاقوامی تنازع ہے۔ اگر یہ مشن بند ہو گیا تو یہ تنازع اپنی موت آپ ہی مر جائے گا۔ پاکستان اور کشمیر کی مقامی قیادت کو اس کی سخت محالفت کرنی چاہیے۔‘

اس دوران اقوام متحدہ کے اہلکار خاموشی سے دہلی کے سرکاری بنگلے میں اپنا سامان سمیٹ رہے ہیں۔ ابھی یہ نہیں معلوم کہ وہ کب تک یہ بنگلہ خالی کریں گے۔

کیا اقوام متحدہ اپنا یہ دنیا کا سب سے پرانا فوجی مشاہدین کا مشن ہمیشہ کے لیے بند کر دے گا؟ اقوام متحدہ نے ابھی تک اس کے بارے میں ایک پر اصرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

0 comments:

Post a Comment