Monday 7 July 2014

’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘ کی نئی قسط

اخبار کی سُرخیوں سے لگا کہ جیسے ’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘ کی نئی قسط دیکھ لی ہے۔ کیونکہ تقریباً آنسو نکل پڑے۔

آپ تو ناراض ہو جاتے ہیں۔‘
’ناراض بھی تو اپنوں سے ہوا جاتا ہے۔‘

گلے شکوے دور، سب پھر بھائی بھائی، لیکن یہ نہ تو ساس بہو کی لڑائی تھی نہ سکول کے گراؤنڈ میں لڑکوں کی لڑائی کے بعد صُلح ۔ بلکہ اس ملک کے دو طاقتور ترین اِنسان ایک دوسرے سے کُٹی کرنے کے بعد دوبارہ جپھی ڈال رہے تھے۔

ہمارے وزیر داخلہ کوئی مہینہ پہلے کسی بات پر وزیراعظم سے ناراض ہوکر گھر بیٹھے گئے تھے اور نخریلے بچوں کی طرح فون کا جواب بھی نہیں دے رہے تھے۔

پہلے اِس روٹھےہوئے کو منانے کے لیے ایک ہرکارہ پھر دوسرا، پھر چھوٹا وفد، اور بعد میں ایک بڑا وفد بھیجا گیا اور آخر میں ایک ہیلی کاپٹر بھیجاگیا جِس پر بیٹھ کر ناراض شہزادہ دربار پہنچا اور پوری قوم یہ منظر دیکھ کر شاداں و فرحاں ہوئی۔
لیکن جب تک یہ ناراضی رہی، ملک کا بندوبست کون چلاتا رہا؟ پاکستان میں وزیر خارجہ ویسے ہی نہیں ہے کیونکہ نواز شریف سے بہتر سفارت کاری کوئی نہیں کر سکتا۔ وزیر دفاع موجود ہیں لیکن وزارت دفاع کو آج تک کوئی مائی کا لال چلا سکا؟ یہ تو خود ہی چلتی ہے۔

ایک وزیر اطلاعات ہیں، جو نہ تو کوئی چینل بند کروا سکتے ہیں اور نہ ہی کھلوا سکتے ہیں۔ بجلی پانی والے بھائیوں نے یہ کام قسمت پر چھوڑ رکھا ہے۔ ریلوے والے وزیر سُنا ہے محنت کر رہے ہیں اور اب ٹرین کے ٹوائلٹ میں لوٹے بھی ہیں اور اُنھیں چوری ہونے سے بچانے کے لیے زنجیریں بھی ڈال دی گئی ہیں۔


اِس منظر نامے میں صِرف وزارت داخلہ بچتی ہے، جس کی طرف پوری قوم کی نظریں تھیں۔ اب تو فوج بھی کہہ چکی ہے کہ اِس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اندرونی سلامتی ہے۔ اس صورت حال میں چوہدری نثار ہی اِس سویلین سیٹ اپ کے سپہ سالار ہیں۔

کبھی سُنا ہے کہ جنگ کے عین بیچ میں سپہ سالار سِک لِیو (بیماری کی چھٹی) پر چلا جائے؟ جِس شخص نے ہمیں بم دھماکوں سے بچانا ہے، بچوں اور بڑوں کو پولیو کے قطرے پلانے ہیں، شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی دادرسی کرنی ہے، کسی پولیس افسر کو ہٹانا ہے کِسی کو لگانا ہے، وہی اگر ناراض ہو جائے تو قوم کس کا دامن پکڑے؟

چوہدری صاحب نے کراچی میں بھی کئی مہینوں سے آپریشن شروع کر رکھا ہے، لیکن کبھی دیکھا ہے کوئی سرجن مریض کی چیر پھاڑ کر کے چلتا بنے اور یہ کہے کہ جاؤ میں نہیں کھیلتا۔

پاکستان کے میڈیا میں سیاست دانوں کا مذاق اڑانا سب سے آسان کام ہے، لیکن چوہدری نثار نے اِس قوم کو ایسی جگت لگائی ہے کہ سمجھ نہیں آتا ہنسیں یا روئیں۔

تجزیہ نگار کہیں گے کہ نواز شریف اور چوہدری نثار کے درمیان جو بیتی وہ ہاتھیوں کی لڑائی ہے کیونکہ ہاتھی لڑیں یا پیار کریں نقصان گھاس کا ہی ہوتا ہے۔ نہ اُن کی کُٹی میں ہمارا کوئی فائدہ، نہ ان کی جھپی کسی کام کی۔

کچھ لوگ کہیں گے کہ چوہدری نثار نے وہ کیا جو غصے میں آ کر دیہاتی عورتیں کرتی ہیں۔ وہ غلط ہوں گے۔ کیونکہ زندگی میں ہزاروں دیہاتی عورتیں دیکھی ہیں لیکن ایسی کوئی نہیں دیکھی جو گھر میں آگ لگنے پر کہے،’آپے بجھاؤ، میری طبیعت خراب اے۔

0 comments:

Post a Comment