یہ ایک پرانی محبت ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے بہت سی مثالیں بھی موجود ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹر کے گزشتہ برس کے ایک سروے کے مطابق جو ملک چین کو وہاں کے لوگوں سے بھی چاہتا ہے وہ پاکستان ہے، مگر اچانک ہی ایسی خبریں سامنے آنے لگی ہیں جو اس مضبوط تعلق کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔
نیوز رپورٹس کے مطابق چین کی حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی نے چینی مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں روزہ رکھنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ چین کی ایک سرکاری ویب سائٹ نے اعلان کیا ہے کہ تمام اساتذہ، طالبعلم اور سرکاری ملازمین پر ماہِ رمضان کے دوران روزے رکھنے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔
اس اچانک پابندی سے سنکیانگ میں مذہبی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔ یاد رہے کہ یہ صوبہ پہلے ہی سیاسی انتشار اور مذہبی جھڑپوں کے باعث مسائل کا شکار ہے۔
اس خطے کے ایک علاقے میں اسکولوں کے ریٹائرڈ اساتذہ کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اپنے طالبعلموں کو مساجد میں جانے سے روکیں۔ جبکہ ایک اسکول کی ویب سائٹ پر اعلان کیا گیا ہے کہ روزے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس سے طالبعلم کی صحت متاثر ہوتی ہے۔
سنکیانگ کے ژاﺅسو نامی کاﺅنٹی میں بیورو آف فارسٹری کے تحت رمضان سے ایک روز قبل ایک تقریب کا انعقاد ہوا، جس میں کمیونسٹ پارٹی کے حامیوں نے تحریری طور پر اس بات کا عہد کیا کہ وہ اور ان کے خاندان روزے نہیں رکھیں گے۔
اسی صوبے کے ہونٹا نامی علاقے میں محکمہ موسیمات کے ایونٹ میں تو اس سے بھی ایک قدم بڑھ کر یہ اعلان کیا کہ تمام مسلمان ملازمین کو ایک خط پر یہ لکھ کر دینا ہوگا کہ وہ روزے نہیں رکھیں گے۔
چین اقلیتی مذاہب کے حقوق کے احترام کا روشن ریکارڈ تو نہیں رکھتا، مگر روزے رکھنے سے روکنا اور دیگر پابندیوں کی چین کی حالیہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
اس کے ساتھ ساتھ چین پاکستان کی امداد اور تعلق کا طویل ریکارڈ بھی رکھتا ہے۔
چین طویل عرصے سے نہ صرف پاکستان کے جوہری پروگرام کی حمایت کرتا رہا ہے، بلکہ اس نے حال ہی میں پاکستان کی سول نیوکلیر توانائی کو آئندہ پانچ سالوں کے دوران توسیع دینے کے لیے مدد فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے، جس کے تحت کراچی میں دس ارب ڈالرز کی مالیت کا بائیس سو میگاواٹ جوہری بجلی پیدا کرنے والا کمپلیکس تعمیر کیا جائے گا۔
چین پاکستان کو فوجی سازوسامان فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور بیجنگ ہی صوبہ بلوچستان میں اسٹرٹیجک لحاظ سے اہم گوادر پورٹ کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔
اسی طرح دونوں ممالک نے آزاد تجارت کے ایک معاہدے پاک چائنا اکنامک کوریڈور پر گزشتہ سال دستخط کیے تھے، جس کے تحت دو سو کلو میٹر طویل ٹنل تعمیر کرکے پاکستان کو سنکیانگ سے ملا دیا جائے گا۔
پاکستان ایک مسلم ملک ہونے کے ناطے دنیا بھر میں مسلمانوں سے ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے تیار رہتا ہے، بیشتر واقعات جیسے فرانس میں برقعے پر پابندی کا معاملہ ہو یا ہندوستانی ریاست گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام، ان کی بھرپور مذمت سے ملک کے اسٹرٹیجک اور اقتصادی مفادات متاثر نہیں ہوتے۔
مگر جہاں تک چین کی بات ہے اس کی جانب سے روزوں پر لگائی گئی حالیہ پابندی پر امکان یہی نظر آتا ہے کہ پاکستانی ردعمل کافی مبہم ہی رہے گا۔
مغرب اور ہندوستان پر تنقید کے برعکس پاکستان اپنے سب سے بہترین دوست پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور نسل پرستی کے الزامات کو نظرانداز کرتا رہا ہے۔
اس تناظر میں سنکیانگ کے مسلمانوں کو اپنے حالات پر ایسے افراد سے یکجہتی کا اظہار چاہئے جو ان کی مذہبی آزادی پر یقین اور روزوں پر پابندی کو ناانصافی مانتے ہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ چین کے مسلمانوں کے خلاف اقدامات پاکستان کی جانب سے اپنی مذہبی اقلیتوں سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک سے زیادہ مختلف نہیں۔
پاکستانی ہندو اور عیسائی کو تنگ کیا جاتا ہے، ہراساں اور قتل تک کردیا جاتا ہے، اس تناظر سے دیکھا جائے تو اقلیتوں کے بارے میں پاکستان اور چین کی پوزیشن میں کوئی خاص فرق نہیں، اگر کوئی فرق ہے تو وہ یہ ہے کہ اقلیتی برادری مسلمان ہے، ہندو یا عیسائی۔
سنکیانگ کے مسلمانوں پر روزوں کی پابندی سے پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات پر کوئی فرق پڑنے کا امکان تو نہیں کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے کی غلطیوں سے مفاہمت کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹر کے گزشتہ برس کے ایک سروے کے مطابق جو ملک چین کو وہاں کے لوگوں سے بھی چاہتا ہے وہ پاکستان ہے، مگر اچانک ہی ایسی خبریں سامنے آنے لگی ہیں جو اس مضبوط تعلق کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔
نیوز رپورٹس کے مطابق چین کی حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی نے چینی مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں روزہ رکھنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ چین کی ایک سرکاری ویب سائٹ نے اعلان کیا ہے کہ تمام اساتذہ، طالبعلم اور سرکاری ملازمین پر ماہِ رمضان کے دوران روزے رکھنے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔
اس اچانک پابندی سے سنکیانگ میں مذہبی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔ یاد رہے کہ یہ صوبہ پہلے ہی سیاسی انتشار اور مذہبی جھڑپوں کے باعث مسائل کا شکار ہے۔
اس خطے کے ایک علاقے میں اسکولوں کے ریٹائرڈ اساتذہ کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اپنے طالبعلموں کو مساجد میں جانے سے روکیں۔ جبکہ ایک اسکول کی ویب سائٹ پر اعلان کیا گیا ہے کہ روزے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس سے طالبعلم کی صحت متاثر ہوتی ہے۔
سنکیانگ کے ژاﺅسو نامی کاﺅنٹی میں بیورو آف فارسٹری کے تحت رمضان سے ایک روز قبل ایک تقریب کا انعقاد ہوا، جس میں کمیونسٹ پارٹی کے حامیوں نے تحریری طور پر اس بات کا عہد کیا کہ وہ اور ان کے خاندان روزے نہیں رکھیں گے۔
اسی صوبے کے ہونٹا نامی علاقے میں محکمہ موسیمات کے ایونٹ میں تو اس سے بھی ایک قدم بڑھ کر یہ اعلان کیا کہ تمام مسلمان ملازمین کو ایک خط پر یہ لکھ کر دینا ہوگا کہ وہ روزے نہیں رکھیں گے۔
چین اقلیتی مذاہب کے حقوق کے احترام کا روشن ریکارڈ تو نہیں رکھتا، مگر روزے رکھنے سے روکنا اور دیگر پابندیوں کی چین کی حالیہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
اس کے ساتھ ساتھ چین پاکستان کی امداد اور تعلق کا طویل ریکارڈ بھی رکھتا ہے۔
چین طویل عرصے سے نہ صرف پاکستان کے جوہری پروگرام کی حمایت کرتا رہا ہے، بلکہ اس نے حال ہی میں پاکستان کی سول نیوکلیر توانائی کو آئندہ پانچ سالوں کے دوران توسیع دینے کے لیے مدد فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے، جس کے تحت کراچی میں دس ارب ڈالرز کی مالیت کا بائیس سو میگاواٹ جوہری بجلی پیدا کرنے والا کمپلیکس تعمیر کیا جائے گا۔
چین پاکستان کو فوجی سازوسامان فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور بیجنگ ہی صوبہ بلوچستان میں اسٹرٹیجک لحاظ سے اہم گوادر پورٹ کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔
اسی طرح دونوں ممالک نے آزاد تجارت کے ایک معاہدے پاک چائنا اکنامک کوریڈور پر گزشتہ سال دستخط کیے تھے، جس کے تحت دو سو کلو میٹر طویل ٹنل تعمیر کرکے پاکستان کو سنکیانگ سے ملا دیا جائے گا۔
پاکستان ایک مسلم ملک ہونے کے ناطے دنیا بھر میں مسلمانوں سے ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے تیار رہتا ہے، بیشتر واقعات جیسے فرانس میں برقعے پر پابندی کا معاملہ ہو یا ہندوستانی ریاست گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام، ان کی بھرپور مذمت سے ملک کے اسٹرٹیجک اور اقتصادی مفادات متاثر نہیں ہوتے۔
مگر جہاں تک چین کی بات ہے اس کی جانب سے روزوں پر لگائی گئی حالیہ پابندی پر امکان یہی نظر آتا ہے کہ پاکستانی ردعمل کافی مبہم ہی رہے گا۔
مغرب اور ہندوستان پر تنقید کے برعکس پاکستان اپنے سب سے بہترین دوست پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور نسل پرستی کے الزامات کو نظرانداز کرتا رہا ہے۔
اس تناظر میں سنکیانگ کے مسلمانوں کو اپنے حالات پر ایسے افراد سے یکجہتی کا اظہار چاہئے جو ان کی مذہبی آزادی پر یقین اور روزوں پر پابندی کو ناانصافی مانتے ہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ چین کے مسلمانوں کے خلاف اقدامات پاکستان کی جانب سے اپنی مذہبی اقلیتوں سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک سے زیادہ مختلف نہیں۔
پاکستانی ہندو اور عیسائی کو تنگ کیا جاتا ہے، ہراساں اور قتل تک کردیا جاتا ہے، اس تناظر سے دیکھا جائے تو اقلیتوں کے بارے میں پاکستان اور چین کی پوزیشن میں کوئی خاص فرق نہیں، اگر کوئی فرق ہے تو وہ یہ ہے کہ اقلیتی برادری مسلمان ہے، ہندو یا عیسائی۔
سنکیانگ کے مسلمانوں پر روزوں کی پابندی سے پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات پر کوئی فرق پڑنے کا امکان تو نہیں کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے کی غلطیوں سے مفاہمت کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
0 comments:
Post a Comment